یہ کس کے آنسوؤں نے اس نقش کو مٹایا
جو میرے لوح دل پر تو نے کبھی بنایا
تھا دل جب اس پہ مائل تھا شوق سخت مشکل
ترغیب نے اسے بھی آسان کر دکھایا
اک گرد باد میں تو اوجھل ہوا نظر سے
اس دشت بے ثمر سے جز خاک کچھ نہ پایا
اے چوب خشک صحرا وہ باد شوق کیا تھی
میری طرح برہنہ جس نے تجھے بنایا
پھر ہم ہیں نیم شب ہے اندیشۂ عبث ہے
وہ واہمہ کہ جس سے تیرا یقین آیا