یہ کون طائر سدرہ سے ہم کلام آیا
جہان خاک کو پھر عرش کا سلام آیا
جبین بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا
”زبان پہ بار خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
خط جبیں تو اُم الکتاب کی تفسیر
کہاں سے لاﺅں ترا مثل اور تیری نظیر
دکھاﺅں پیکر الفاظ میں تری تصویر
”مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے“
کہاں وہ پیکر نوری، کہاں قبائے غزل
کہاں وہ عرش مکیں اور کہاں نوائے غزل
کہاں وہ جلوہ ¿ معنی، کہاں ردائے غزل
”بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے“
تھکی ہے فکر رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
”ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے“