آگ پر رشک سے میں چاک گریباں لوٹا
خاک پر وقت خرام اس کا جو داماں لوٹا
دل کو از بسکہ جو لاگ ابرائے خم دار سے تھی
دم شمشیر کو میں دیکھ کے عریاں لوٹا
حق بجانب ہے جو موسیّ کو نہ ہو تاب جمال
تجھ کو نادیدہ دل گبر مسلماں لوٹا
عید قرباں جو قریب آئی تو کچھ دل میں سمجھ
پاون پر آکے مرے حاجب زنداں لوٹا
مرغ بسلم کی طرح تڑپے ہزاروں دل زار
ہنستے ہنستے جو کبھی وہ گل خنداں لوٹا
میں نے آتش جو کیا نالہ در جاناں پر
دونوں ہاتھوں سے جگر تھام کے درباں لوٹا