ادھر سے ادھر بس جاتے رہو
جیون کو یونہی تم بتاتے رہو
ہے دھندا پرانا ‘ ہے کون روکے
گوالو تم بس پانی ملاتے رہو
ہو بوندا باندی کہ دھوپ کڑی ہو
من چلو پتنگ اپنا تم اڑاتے رہو
ہے جوتیوں کا مارا ‘ بیہوش بیچارا
اسے تم لاکھ جوتیاں سنگھاتے رہو
چاہئیے ہمت “ اجنبی دوستی“ میں
کیوں پھر روز آنکھیں لڑاتے رہو
کزن کی موٹر پہ بلا لائیسنس پھرے
کاہے پھر یہ مکرر بتاتے رہو
یونیورسٹی کے ‘ سوشل ورک ‘ میں ہو پڑھتے
کیوں نہ پھر سوشل بن کر دکھاتے رہو
عوام سے سیدھا ہے کون یہاں پر
لیڈرو تم انہیں الو بناتے رہو
بچے پہ بلوغت یاں جلد آئے
اسے پھر تم گانے سکھاتے رہو
کام اتنا کریں ناصر جتنی ہو مرضی
تنخواہیں ہماری خوب بڑھاتے رہو