" اس دل میں "
Poet: ارسلان حُسینؔ By: Arsalan Hussain, Ajmanکرب کی لزَتیں اور ہجر کی گہرائ ہے اس دل میں
میں تنہا ہوں مگر ذوقِ بزم آرائ ہے اس دل میں
جو قبرستان کی ساقِت ہواؤں میں ہیں سناٹے
وہی وحشت، وہی منظر، وہی تنہائ ہے اس دل میں
عزیزوں لُوٹ لو سب کچھ فقط تم اس کو رہنے دو
عکسِ یار بڑی مشکل سے بنائ ہے اس دل میں
ابھی ٹہرو! میں خوشی کے ذرا دو اشک بَہا لوں
بڑی مُدت کے بعد آج تُو آئ ہے اس دل میں
یہ دنیا شوق سے بخشے مجھے کیا غرض ہے جاناں
ہاں! جو تم نے سونپی ہیں وہ رسوائ ہے اس دل میں
اگر چاہو! تو خاموشی سے تم مجھسے بچھڑ جاؤ
میں مسیحا نہں لیکن مسیحائ ہے اس دل میں
میری ذاتِ خِلوت سے چِمَٹ آتے ہیں سارے دکھ
تیری تاثیرِ غم کی رعنائ ہے اس دل میں
خواب اور حسرتیں رو پڑی آپس میں لپٹ کر
آج اِک اُمید بہت ٹُوٹ کر آئ ہے اس دل میں
سنو! خوابوں کے سوداگر بہت نقصان اُٹھاؤ گے
تجارت بے حد مشکل ہے بہت مہنگائ ہے اس دل میں
بھلا اب کون کرے کھیتی میرے دل کی زمیں پر
تُو نے نفرت کی فصل ایسی اُگائ ہے اس دل میں
شِکستہ پاں رہے آخر نہ کوئ جیت سکا اسکو
بہت لوگوں نے اپنی قسمت آزمائ ہے اس دل میں
کوئ دستک بھی اگر دے تو دھڑکن چیخ اُٹھتی ہے
کہ ٹہرہ ہوا برسوں سے ہرجائ ہے اس دل میں
حُسینؔ اُلفت کے تقاضوں سے نبہا کیوں نہں کرتے؟
دیکھو! پھر سے کسی کی یاد اُبھر آئ ہے اس دل میں
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






