باپ
Poet: اُسامہ علی By: اُسامہ علی , Karachiبلندی کے سنہرے خواب بچوں کو دکھاتا ہے
 پڑھاتا ہے لکھاتا ہے سبق روشن سکھاتا ہے
 
 بھلے مجبور ہو کر بھوک کو اپنی چھپاتا ہے
 وہی تو پیٹ اپنا کاٹ کر سب کو کھلاتا ہے
 
 اگر اولاد مہنگی چیز کی خواہش ذرا کردے 
 سو پھر کتنے ہی خرچے ہوں ادھاری پر اٹھاتا ہے
 
 مجھے ہے یاد دو جوڑی فقط اس کے ہیں کُل کپڑے
 وہ اپنا آپ کھوتا ہے تو گھر کیوں کر چلاتا ہے
 
 ذرا سوچو زمانے کے ستم کو کیوں بھلاتا ہے
 وہ اپنے اور پرائے جتنے ہیں رشتے نبھاتا ہے 
 
 میں آنکھیں بند شب ساری اسے تکتا رہا ہوں بس
 ستاروں سے بھی روشن، ذہن میں وہ ٹمٹماتا ہے
 
 بڑا اچھا علیٓ لگتا ہے سن کر فخر ہوتا ہے 
 جہاں بھر میں مری گن کامیابی کے وہ گاتا ہے
  
More Father Poetry







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 