" بہشت"
Poet: Mobeen Nisar By: Mobeen Nisar, Islamabad
خلعت_ بہشت ریشم و اطلس کی ہے
پہنے ہوئے باوقار کھڑے ہیں
ماتھوں پر محرابوں کے نشاں ھیں
سینے ایمان سے بھر ے ہیں
ساقیٴ کوثر کا دست_ شفاعت ہے
پیاسے قطار در قطار کھڑے ہیں
انجیر، زیتون اور سب میووٴں سے
فردوس_ بریں کے درخت لدے ہیں
تاحد_ نظر سبزے کی بہار ہے
جنت کے سب باغ ہرے ہیں
چشمے ہیں صاف شفاف پانی کے
پینے میں آب_ حیات کے مزے ہیں
تہہ بہ تہہ کیلوں کے درخت ہیں
بیریوں کو نہ خار لگے ہیں
پر تعیش محلوں کے در و دیوار
نظروں میں چمک رہے ہیں
نہریں رواں دودھ اور شہد کی
شراب_ طہور سے جام بھرے ہیں
جو چاہیں گے کھا ئیں گے
پرندوں کے گوشت لذیذ بڑے ہیں
حوریں جیسے سفید آبدار موتی
خدمت کیلئے خدمت گار کھڑے ہیں
اہل_ جنت کو کچھ غم نہیں ھے
سبز کالینوں پر مسند سجے ہیں
بیٹھے ہیں سائیوں میں تکیے لگائے
زمرد ، مرجان اور یاقوت جڑے ہیں
شوق_ دیدار_ رب میں ، منتظر !
آنکھوں کے انتطار کڑے ہیں
مگر سکوں نہ ملا، چاہ تھی جو آج میں نے
نظر کو جلوہ ملا، دل کو مگر جلا پایا
نگاہِ خلق کا صدقہ لیا، سناج میں نے
حسن کو آئینہ سمجھا، نفس کو راہنما
خودی کو بیچ کے چمکا ہر اک سماج میں نے
خدا سے دور رہی، عکس کو رب جانا
چھپا کے سچ کو رکھا ہر نئے رواج میں نے
جہاں کی شہرت و دولت پہ فخر کرتی رہی
بکھر گئی تھی مگر جب کھُلا مزاج میں نے
لبوں پہ ذکر تھا میرا، بدن تھا خاص تمہید
مگر سکون نہ ملا لاکھ کی معراج میں نے
غرور، فتنہ، ہوس — یہ میرے سنگ رہے
کیا خاک پا سکا دل میں وہ معراج میں نے؟
اک اشک گِرا تو بند در وا ہوئے
خُدا کو پایا جب توڑا ہر احتجاج میں نے
اب آئینہ نہیں، دل ہے مرا معیارِ جمال
بدن سے باطن تلک دیکھا نیا سماج میں نے
شاکرہ اب نئی صبحوں کی جستجو میں ہے
خودی کی روشنی میں بدلا ہر سماج میں نے
میں آئینہ ہوں، مری آنکھ ہے کمال و وصال
نہ صرف حسن کی تصویر ہوں، نہ جسم کی بات
میں اک خیالِ جلیل، اک زمانہ سوال
میں آدمی کی طرح ہوں خدا سے جُڑی ہوئی
مری وفا میں بھی پنہاں ہے ذاتِ ذوالجلال
میں کوکھ میں بھی زمانوں کی رہبَری رکھوں
مری دعاؤں سے نکلیں جہاد و انقلاب کی تال
خموشیوں میں مری شورِ کائنات بھی ہے
مرے سکوت میں چھپتے ہیں صد ہزار خیال
مجھے نہ تول ترنگوں میں، زلف و چشم سے تُو
میں نورِ فہم ہوں، جذبوں کا اک نیا زوال
اگر میں عشق کروں، تو وہ بھی خالص ہو
بدن کی سرحد سے آگے ہو جذب کی جال
میں شاکرہ بھی ہوں، نندنی بھی ہوں، تاج بھی
میں خود سے عشق میں زندہ ہوں، نہ محتاجِ وصال
ہر ایک چہرہ یہاں آئینہ خواں کیوں ہے؟
لبوں پہ ذکرِ ہُدیٰ، دل میں نفس کا شور
یہ خود فریبیٔ آدم کا جہاں کیوں ہے؟
جو زہر بانٹتے پھرتے ہیں حکمتوں کے نام
وہی تو فخرِ زمانہ، وہی امامان کیوں ہے؟
خموش دل ہے، نگاہوں میں اک تماشہ ہے
یہ نور چھن سا گیا، دل پریشاں کیوں ہے؟
نہ فاش گفتم و لیکن دلِ خموش نگشت
چراغ بودم و آندم کہ سوختم نگشت
کبھی جو سچ کی کرن چھو گئی دلوں کے قریب
تو جھٹ پلٹ کے وہی لوگ گمراں کیوں ہے؟
یہی وہ لمحۂ آتش، یہی وہ ساعتِ درد
کہ خود سے دور ہے انسان، یہ اماں کیوں ہے؟
بہ ہر خموشیِ شب، برقِ جنوں ہے پوشیدہ
سکوتِ دل میں بھی اک شوخ فغاں کیوں ہے؟
تُو خود چراغ ہے اے دل! تُو اپنی راہ دکھا
مگر یہ تیرگی ہر سُو نمایاں کیوں ہے؟
وہ جو صدا تھی کبھی "رُک جا، یہ راہ خطا کی ہے"
وہی صدا بھی کہیں اب گماں کیوں ہے؟
خدا نہ کرد کہ اندھیروں سے عشق ہو جائے
طلسمِ شب میں اگر دن بھی نہاں کیوں ہے؟
ترا ورد میرےآقا مری جاں بنا ہوا ہے
مرے قلب و روح پہ بھی ہوا نقش سبز گنبد
جو وہاں ضو فشاں ہے ، وہ یہاں بنا ہوا ہے
ہے خیالِ کوئے طیبہ سے عجیب ربط میرا
میں مکیں بنا ہوا ہے وہ مکاں بنا ہوا ہے
تری یاد سے جو نکلا تو رہوں گا کچھ نہ باقی
میں اسی پہ مشتمل ہوں جو دھیاں بنا ہوا ہے
تری نعت پڑھ رہا ہوں یہ کہا ہے رفعتوں نے
ذرا دیکھ لیں ٹھہر کے جو سماں بنا ہوا ہے
مجھے اک جھلک دکھاو کہ میں آ نکیں کھول پاوں
یہ مرے لئے زمانہ تو دھواں بنا ہوا ہے
کسی اور در پہ ثاقب ، بھلا کیوں صدا لگائے
جو گدا،گدائے شاہِ دو جہاں بنا ہوا ہے
تلاش کر دل میں تو پائے گا حضور کی بات
خودی کو کر بلند، مت رُک ظہور کی راہ
سکھائے گی تجھ کو بھی بادِ صبور کی بات
نہ دیکھ ظاہر کو، باطن کا راز کھلتا ہے
حقیقتوں میں چھپی ہے سُرور کی بات
جو حرفِ حق سے گریزاں ہے، وہی ہے محرومی
نظر میں رکھ کے چمک دے ظہور کی بات
یہی تو فطرت کا پیغام ہے، سن اے غافل
نہیں ہے خاموش فضا میں سکوتِ دُور کی بات
نہ خوابِ کاغذی کافی، نہ فکرِ بے عملی
اُٹھا کے رکھ دے قدم پر شعور کی بات
ہزار چہرے ہیں جو آئنے میں کھوئے ہوئے
نہ اُن میں دل کی لگن ہے، نہ نور کی بات
یہ کارواں جو رُکا، خاک ہو گیا آخر
قدم بہ قدم ہے یہاں پر عبور کی بات
شعورِ ذات ہو پیدا، تو کائنات ملے
کہ بزمِ دل میں ہی رکھی ہے حُور کی بات
یہ درد، شاکرہ، صدقِ سفر کا ہے انعام
ملے گی فردا کو منزل، ہے جُور کی بات
فقط چھوٹا سا ایک دریا ہوں الفاظ بہاتا ہوں
اقبال '' سا کچھ انداز بیان چاہتا ہوں''
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
فراز '' کو پڑھتا ہوں ، انداز ''فیض'' چراتا ہوں''
اپنے ٹوٹے الفاظوں میں ''میر '' کا درد ملتا ہوں
انشا '' جی کو سنتا ہوں ،''حفیظ'' کو سناتا ہوں''
اپنے قلم کی نوک میں ''حالی '' کو سماتا ہوں






