صبح طیبہ میں ہوئی بٹتے ہیں صدقے نور کے
صدقے لینے نور کے آے ہیں تارے نور کے
ہیں مرے آقا بنے سارے کے سارے نور کے
ذکر اُن کا جب بھی ہوگا ہوں گے چرچے نور کے
دل میں نظروں میں بسیں طیبہ کی گلیاں نور کی
روح میں بس جائیں طیبہ کے نظارے نور کے
داغِ فرقت نور والے شہر کا اب دیں مٹا
گنگناوں آکے طیبہ میں ترانے نور کے
طلعتِ آقا لحد میں میری جلوہ گر تو ہو
’’قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور کے ‘‘
نوری سُرمہ خاکِ طیبہ کا لگاوں آنکھ میں
اپنی نظروں میں بسالوں میں ستارے نور کے
آپ کے زیرِ قدم ہیں سارے نیچر کے اُصول
پائے اطہر کے بنے پتھر میں نقشے نور کے
چشمۂ تسنیم و کوثر اور بہارِ خُلد بھی
زُلفِ احمد کیلئے ہیں استعارے نور کے
نورِ احمد ہے عیاں سارے جہاں میں بے گماں
جتنے جلوے بھی ہیں دنیا میں ہیں ان کے نور کے
نور والوں کا گھرانا اپنا مارہرہ شریف
جِھلملاتے جیسے پر تَو مصطفیٰ کے نور کے
خاندانِ پاکِ برَکاتِیہَّ کے فیضان سے
پھل رہے ہیں چار جانب ’’ نوری شجرے ‘‘ نور کے
اعلیٰ حضرت کے ’’ قصیدئہ نوریہ ‘‘ کے فیض سے
اے مُشاہدؔ لکّھے میں نے کچھ ترانے نور کے