عشق کی کوئی ذات نہیں
عشق مگر ہے ذات میں
ہے کسی کا حسن تو ہے
کسی کی بات میں
عشق مکمل خود نہیں
معبود مکمل ہے مگر
ہوتا بھی تو ہے فقط
عشق خدا کی ذات سے
ہے مجازی محبت پی زوال ممکن مگر
آ نہیں سکتا زوال عشق خدا کی ذات میں
وہ جو تجھ میں ہے بسا تو غیر کوئی اور کیوں ؟
ہو نہیں سکتی ملاوٹ عشق کے مقام پہ
وہ جو رنگ دے تجھے تو رنگ اسی کا بس رہے
میں کیا تھا ؟ میں کیا ہوں ؟ میں کبھی بھی نہ رہے
بس فقط اک ذات ہو اور بس اسی کی بات ہو
کوئی داخل ہو کبھی نہ عشق کے دربار میں
ہے بہت کٹھن یہ منزل ہر کوئی چل سکتا نہیں
حق ہے جس کا راستہ اور درد قدم با قدم
انتہائے عشق کو کربلا میں دیکھ کر
عشق خود ہی رو پڑا سجدہ عشق دیکھ کر
ہے فنا تو پھر بقا میں زندہ کون ہے ؟
ہے جہاں بھی عشق وہاں زندہ میرا حسین (رضي الله عنه ) ہے