ذرا ذرا سی بات پر آئے بیٹھے ہیں
بس جھگڑے کا موڈ بنائے بیٹھے ہیں
ہم نہیں چاھتے باہم کوئی تلخیان۔
اور وہ رنجشیں بڑھائے بیٹھے ہیں۔
چند دوست واحباب گرد جمع کر کے۔
الفت کا اپنی تماشہ خد لگائے بیٹھے ہیں۔
کس کی مجال جو ہمارے درمیاں آئے؟
ہم کوں سا کسی کے گھر آئے بیٹھے ہیں؟
بسکہ یار ہم اپنی عزت سے ڈرتے ہیں۔
وگرنہ تو زمانے کو سبق سکھائے بیٹھے ہیں
بھاڑ میں جائے دنیا اسد اور سارا زمانہ بھی۔۔۔
ہم کون سا احسان کسی کا اٹھائے بیٹھے ہیں؟