جو تمنا دل میں تھی اشکوں میں وہ سب بہہ گئی
تجھ کو پانے کے لیے ہی دل کی دنیا رہ گئی
خون حسرت جو پیا تو پھر زبان حال پر
تو ہی تو ہو زیست میں بس یہ صدا ہی رہ گئی
ہے سحاب غم جو برسا چشم تر سے جب مری
جو قساوت دل میں تھی وہ ساتھ اسکے بہہ گئی
عشق تیرے میں خدایا کس قدر تاثیر ہے
جو بھی کلفت دل پہ ائی دل کی دنیا سہہ گئی
سیفی تیری یہ زبان عشق خدا سے وجد میں
بات جو نہ کہہ سکی تھی بات وہ بھی کہہ گئی