آگیا پھر سے وہ دندناتا ہوا
مرغ کی طرح سینہ پھلاتا ہوا
ہاں میں ہاں اسکی ایسے ملاتا ہے وہ
جیسے گھوڑا کوئی ہنہناتا ہوا
مجھ سے رخ پھیر کر کچھ وہ ایسے گیا
تیر جیسے کوئی سنساتا ہوا
آج حقارت سے جو دیکھتا ہے یہاں
وہ ہی چلتا تھا کل ڈگمگاتا ہوا
آج کبرو نخوت سے ہنستا ہے جو
کل وہ روتا تھا یہاں بلبلاتا ہوا
میری تحقیر کرنے وہ آیا مگر
لوٹا شرمندہ سر کو کجھاتا ہوا
تیرے جانے سے محفل یہ سونی ہوئی
ایک تو ہی تو تھا دل کو بھاتا ہوا
حق پرست ناظم شہر جب تک رہا
شہر آیا نظر جگمگاتا ہوا
آج اشہر پہ بھی اک نیا رنگ ہے
وہ بھی آیا ادھر گنگناتا ہوا