نظر سے یہ د ل سلگ رہا ہے
کوئ خودہی میں سمٹ رہاہے
گذرتے لمحے ہو گئے ہیں ساکت
یہ چاند پھرکیوں جانے گھٹ رہاہے
وہ پیار کرتاہےابھی بھی مجھ کو
پھر اوٹ میں کیوں درکی چھپ رہاہے
میرے صبر کا نہ امتحا ں لو
وصل کا ہر امکاں مٹ رہا ہے
متاع تھا جو حیات کامیری سارا
نگر میں تیرے ہی لٹ رہا ہے
قریب مرگ ہوں ہجر میں تیرے
دل ہر دفعہ بات اک رٹ رہا ہے
لکھا جہاں تھا مل کے نام اپنا
وہ دیکھو شہتیر کٹ رہا ہے
جہاں سے پانی تھی اپنی منزل
غزل وہ رستہ ہی چھٹ رہا ہے