''میرے وطن کے معماروں!! تمہیں جنت مبارک ہو''
Poet: خراج عقیدت-:محمدسلیم قادری By: Muhammad Saleem Qadri, Karachiباپ کے گوشہ جگر، ماؤں کے نورعین
جن سے رونق تھی گھر میں، جو تھے سب کا چین
ہر صبح کی طرح آج بھی تیار ہوئے تھے
حصول علم کیلئے آج بھی بے قرار ہوئے تھے
معلوم نہ تھا زنگ لگ چکا ہے کسی کی عقل کو
قدم اٹھ رہے تھے ان کے راہ مقتل کو
ہنستے، کھیلتے، جھومتے، اٹکھیلیوں کے ساتھ
جارہے تھے آغوش اجل کی جانب ٹولیوں کے ساتھ
ماں نے ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے لعل کو، گھر سے رخصت کیا
باپ نے ماتھا چوم کر، درس گاہ پہ چھوڑ دیا
معلوم نہ تھا کچھ لمحوں میں کیا ہونے والا ہے
جو مسکراتا گیا ہے اب نہ آنے والا ہے
کہاں سے خوشیاں چھیننے آ گئے جلاد
بے رحم، آباد گھروں کو کر گئے برباد
خون میں لت پت دیکھ کر چلاتی تھی ماں
اس کے سر پر تو سہرا دیکھنا چاہتی تھی ماں
گور اندھیری قبر میں وہ بہت گھبرائے گا
میرے بیٹے کب تو اپنی ماں سے ملنے آئے گا
میرے لعل اب صبح میں کس کو جگاؤں گی
تڑپ تڑپ کے ایک دن میں بھی سو جاؤں گی
کہتا تھا باپ میری تو قسمت روٹھ گئی
ساری کمائی لٹ گئی، کمر ٹوٹ گئی
ظالموں ظلم کو بھی شرما دیا تم نے
کھلتے پھولوں کو لہو میں نہلا دیا تم نے
میرے بچوں تمہارا خون رنگ لے آیا
بکھری قوم کو اک صف میں لے آیا
ضمیر کرتا ہے ملامت ہمیں اور بات بھی صاف ہے
ہم سب تمہارے مجرم ہیں، اس بات کا ہمیں اعتراف ہے
ہم تمہارا بدلہ لیں گے، دیکھو تم ہم سے نہ بدلہ لینا
بس اتنا کرنا روز محشر، ہم سے مسکرا کر مل لینا
اے میرے وطن کی مٹی تیرے جانثاروں کو سلام
خاک و خون میں لپٹے ہوئے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے شہیدوں کو سلام
یہ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے تا قیامت با خدا
فضائوں کے محفظ سمندر کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروشان وطن
تمہارے گھر کے آنگن کو اور تمہاری ماؤں کو سلام
ہمیں کمزور نا سمجھنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاہنے والے ہیں ہم اور اللہ کے نام سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاوں گا کبھی میں فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
خاک و خوں میں لپٹے ہوے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے ان شہیدوں کو سلام
یہ سبز حلالی پرچم لہراتا رہے گا تا قیامت باخدا
فضاؤں کے مہافظ سمندروں کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروش وطن
تیرے گھر کے آنگن کو اور تیری مآؤں کو سلام
ھمیں کمزور نہ سمھجنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاھنے والے ہیں ھم الله کے نام کو سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاؤں گا کبھی اے فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
تجھ سے سپر، کوئی نہیں
اقبال نگیں ہے، تیرا مکیں
تجھ پر سایۂ عرشِ بریں
تو ہی نغمۂ حق، تو ہی مرا دین
تو سرزمینِ عشق، تو حق الیقین
اے مہرِ زمیں! اے نصرِ مبیں
"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا"
نہ لبھا سکے جسے، زلفِ حسیں
ایسے سپاہی! ہم مردِ صحرائی
اے ابنِ قاسم! تجھ کو قسم
رکھنا بھرم، شانِ جبیں
ہے فخر اپنا: بابر، غوری اور شاہین
توڑیں گے ترا زعم، اے عدوِ مبین
اے خدا! کر عطا، صبر و یقین
قائم رہے نظامِ نورِ مبین
مسلمانوں کی مسلمانی سے عاری ہے قدس کی بیٹی
اسرائیل کی کتے بھاگتے ہیں ہاتھ میں پتھر دیکھ کر
جیسے کہ اسلحے سے لیس کوئی شکاری ہے قدس کی بیٹی
وہ جانتی ہے نہ ایوبی نہ قاسم نہ طارق آئے گا کوئی
نہیں اب کسی مجاہد کی انتظاری ہے قدس کی بیٹی
دیکھ لو عاؔمر کہ لرزاں ہے اب یزید وقت
مثل زینبؓ جم کہ کھڑی ہے ہماری قدس کی بیٹی
کبھی اک لمحے کو سوچو
جس انقلاب کی خاطر
سر پہ باندھ کر کفنی
گھروں سے تم جو نکلے ہو
اُس انقلاب کا عنصر
کوئی سا اک بھی تم میں ہے؟
بازار لوٹ کے اپنے
دکانوں کو جلا دینا
ریاست کے ستونوں کو
بِنا سوچے گرا دینا
تباہی ہی تباہی ہے
خرابی ہی خرابی ہے
نہیں کچھ انقلابی ہے
نہیں یہ انقلابی ہے
سیاسی بُت کی چاہت میں
ریاست سے کیوں لڑتے ہو؟
فقط کم عقلی ہے یہ تو
جو آپس میں جھگڑتے ہو
گر انقلاب لانا ہے
تو پہلے خود میں ڈھونڈو تم
تمہارے بُت کے اندر ہی
جو شخص اک سانس لیتا ہے
کیا وہ سچ میں زندہ ہے؟
وہ اپنے قولوں، عملوں پر
راضی یا شرمندہ ہے؟
بِنا اصلاح کے اپنی
انقلاب آیا نہیں کرتے
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے
اِسے لایا نہیں کرتے






