زمیں پر ہی نہیں ، چرچا تو اُن کا آسماں تک ہے
اِسی عالم پہ کیا موقوف ہے ،ہر اک جہاں تک ہے
الگ یہ بات چشمِ دوستاں میں ہم کھٹکتے ہیں
مگر مدح و ثنا آقا کی بزمِ دشمناں تک ہے
اُسی کو دیکھتا ہوں اور اُسی کا نام لیتا ہوں
مری فکر و نظر کی حد بس اُن کے آستاں تک ہے
خدایا ! رحم فرما کب تک اُس کی دید کو ترسوں
یہ دوری ختم کر طیبہ سے جو ہندوستاں تک ہے
نہ صرف اخترؔ رضا اور مفتیِ اعظمؔ سے نسبت ہے
مُشاہدؔ سلسلہ اپنا رضاؔ سے نعت خواں تک ہے