دردِ عشقِ احمد کا کیوں گِلہ کروں گا میں
ہے یہی دواے دل کیوں دوا کروں گا میں
دل میں یادِ خالق ہو ، لب پہ ذکر ہو اُن کا
اور چاہیے پھر کیا اور کیا کروں گا میں
جان میری سوزاں ہے ، عشقِ مصطفیٰ سے جب
سوزشِ جہنّم سے کیوں ڈرا کروں گا میں
عندلیبو! خوش رہنا ، رنگ ونکہتِ گُل پر
خارِ طیبہ کا بوسہ لے لیا کروں گا میں
رازِ لیِ مع اللہ کے راز داں وہی تو ہیں
اُن کو مالک و مولا ہی کہا کروں گا میں
خواب میں جو ہو جائے دیدِ سرورِ عالم
کیفِ حُسنِ آقا میں گم رہا کروں گا میں
یوں تو واعظ اچھا ہے ، ذکر باغِ جنت کا
حُسنِ طیبہ میں گم ہوں ، خُلد کیا کروں گا میں
عزم ہے مُشاہدؔ کا نعت گوئی سے اپنی
سب کو عشقِ احمد میں مبتلا کروں گا میں