نہ جانے کس لمحے چھیڑے مضراب کے تار ہم نے
گزری عمر اک کُوۓ گردش اضطراب کے زار میں
آزاد منش آزاد ہی رہے جلبِ زر کی قید سے
ڈھونڈتے ہی رہے ہم خیال و ہم قلب اس دہر میں
جلوہ تیرا یوں جلوہ ہی رہا حجاب کی قید میں
مظہر بنا بے سود رہے منظر سراب کے پہر میں
رہے جانے کیوں منتظر اک نظر تابشِ سحر کے
جلوہ گر ہوتے نہیں قمر بھی کبھی آتشِ بحر میں