آبِ حیات اُن کے الفاظ میں بسا ہے
لاکھوں اَمر ہوئے ہیں، احمد کی یہ دعا ہے
پھرتے تھے ہم بھٹکتے صحرا میں ظلمتوں کے
یارب نبی کے صدقے پھر راستہ ملا ہے
راحت ملے گی سب کو احمد کے در پہ جا کر
مقتل بنی ہے دنیا ، ارزاں ہے انتہا ہے
گلشن میں اب تمہارے فصلِ بہار آئے
طیبہ کی رہ گزر پر تم نے قدم رکھا ہے
یہ آرزو ہے یارب عشقِ محمدی میں
بن کر پھروں دوانہ ہوش و خرد بھی کیا ہے؟
اے خالقِ دو عالم دستِ کرم بڑھا دے
کشتی ہے بحر ِغم میں اور دور راستہ ہے
وشمہ جی جان واروں جا کر نبی کے در پر
یارب یہی تو میرے ہر درد کی دوا ہے