اِک روز مجھے عالمِ فانی سے اُٹھا کر
پوچھا گیا نامہءِاعمال دکھا کر
یہ شعلہءِتابندہ جو سینے میں ہے تیرے
رکھاہےجسے تُو نے اِک عالَم سے چھپا کر
یہ آرزوءِ شہرِ نبیؐ جس کی حفاظت
کرتا ہے تُو اِس قدر دل و جان لگا کر
کرتا ہے دعا روز کہ جانا ہے مدینے
سجدے میں کبھی اور کبھی ہاتھ اُٹھا کر
!ؐنہ عمل، نہ گفتار، نہ اخلاقِ محمد
کیا کرنا ہے اُس حجرہءِ پُرنور پہ جا کر؟
کی عرض بڑے عجز سے ڈرتے ہوئے میں نے
سینے میں دبی بات لفظوں میں سجا کر
اِک بار ہے دل کھول کے رونے کی تمنا “
“!سر روضہءِ اقدس پہ ندامت سے جھکا کر
*
یہ اشعار والدِ گرامی کے مدینہ منورہ منتقل ہونے پرلکھے ( آخری شعر محمد زکی کیفی کا ہے)۔