اس دیس کو تم گہوارہ امن بنا دو
قائد کے اصولوں کو تم آئین بنا دو
ایوانوں کے تم سب در و دیوار ہلا دو
انصاف بس انصاف کا تم نعرہ لگا دو
انصاف کے قاتل کو کٹہرے میں سزا دو
منصف ہوں اگر ایسے تو منصب سے ہٹا دو
جس نے تمہیں لوٹا وہی اب تخت نشیں ہے
اٹھو نو جوانو تم یہ تخت ہلا دو
یہ سانپ جو بیٹھے ہیں خزانوں پہ تمہارے
وہ بین بجاؤ کے انہیں دھرتی سے بھگا دو
چاہیں ہیں جو ہم امن و اماں سے یہاں رہنا
مرضی ہے عدو کی انہیں آپس میں لڑا دو
بچوں کو سیاست کی ابجد بھی سکھا دو
حق گوئی کا بھی یہ سبق ان کو پڑھا دو
زرخیز زمیں ہے اسے فصلوں سے سجا دو
گوداموں میں گندم کے تم انبار لگا دو
پہنو کوئی پوشاک تو ہو دیس کی اپنے
غیروں سے خریدی ہوئی ہر چیز ہٹا دو
ملا کے لیے قتل تو واجب ہے سبھی کا
اس ملک سے جنگل کا یہ دستور ہٹا دو
ملا کو ذرا باندھ کے رکھ کوئی دن کو
قرآن کے بس درس سے انسان بنا دو
رکھ تو غرض اپنی عبادات سے ہی بس
کیا فرقہ کسی کا ہے یہ اب دل سے بھلا دو
پھر کوئی نہ دیکھے ہم کو ترچھی نظر سے
گروی ہے وطن تم اسے دشمن سے چھڑا دو
میدان سیاست کے اے مانے ہوے مہرو
تم ہار کے اک دن یہ وطن اپنا جتا دو