زہے نصیٖب سفر ہو مرا بھی سوئے نبی
خوشا ! میں دیکھ لوں یارب زمینِ کوئے نبی
سمجھ لو اس کا ستارا ہے اوج پر پہنچا
کہ جس نے خواب میں دیکھا ہو حُسنِ روئے نبی
اسے گلاب کی خوشبو سے کیا غرض ہوگی
جسے ملی ہو مقدر سے بھیٖنی بوئے نبی
مجھے طلب نہ ہو دنیا کے سیٖم وزر کی خدا
فقط ہو دل سے مرے دل کو آرزوئے نبی
نہ جامِ جم کی طلب ہے نہ تختِ قیصر کی
مجھے تو چاہیے یارب زمینِ کوئے نبی
خدایا ! رُوح ہماری یُوں تن سے کرنا جُدا
دُرود لب پہ ہو جاری نظر میں روئے نبی
طفیلِ غوث و رضا ، عشقی ، عینی و نوری
دکھا دے خواب میں یارب مجھے بھی روئے نبی
کوئی کرے گا مُشاہدؔ کا بال کیا بانکا؟
کہ ذہن و دل میں بسا ہے خیالِ موئے نبی