ایک تم ہی تو نہیں . ہم کیا کریں
اور بھی دنیا میں ہیں غم کیا کریں
اور مل جاتے ہیں اب بازار سے
دل کے لٹ جانے کا ماتم کیا کریں
روح کے گھاؤ نظر آتے نہیں
بے بصیرت ان کے مرہم کیا کریں
اب غنا بھی روح کا آزار ہے
بے سروں کی ایسی سرگم کیا کریں
جو چھلک جائیں فقط اک بوند سے
دخترِ رز ساغر و خم کیا کریں
وہ تو بس پیتے ہیں اب تہوار پہ
اس سے بڑھ کر اور وہ کم کیا کریں
گھر کے جھگڑوں میں بنے فٹبال ہیں
ہر کوئی ہم سے ہے برہم کیا کریں
خوش سلیقہ ہے وہ باکردار ہے
نقش ہیں تھوڑے سے مدھم کیا کریں
مانگتا شیطاں بھی ہے ان سے پناہ
پیر گنڈے منتر و دم کیا کریں
جی نہیں سکتے بنا ہم داد کے
شاعری میں پر نہیں دم کیا کریں
قوم کی غیرت ہی جب مفلوج ہو
پهر ترانے گیت پرچم کیا کریں