مرے چہرے پہ یوں دھبے پڑے ہیں
چمکتے چاند پر جیسے گڑھے ہیں
تھے میرے گال یہ تازہ گلوں سے
ہیں اب پچکے ہوئے جیسے سڑے ہیں
بہت سی جھول ہے اب رخ پہ میرے
جوانی جا رہی ہے دکھ بڑے ہیں
میں اکثر سوچتی ہوں خلوتوں میں
یہ میرے بال کیوں سر سے جھڑے ہیں
کبھی لہراتے تھے نیچے کمر تک
مگر کب سے یہ اب سر پرکھڑے ہیں
اے کھالوں کے مسیحا ! کچھ دوا کر
ہوئے چالیس کے پھر بھی چھڑے ہیں