بلندی کے سنہرے خواب بچوں کو دکھاتا ہے
پڑھاتا ہے لکھاتا ہے سبق روشن سکھاتا ہے
بھلے مجبور ہو کر بھوک کو اپنی چھپاتا ہے
وہی تو پیٹ اپنا کاٹ کر سب کو کھلاتا ہے
اگر اولاد مہنگی چیز کی خواہش ذرا کردے
سو پھر کتنے ہی خرچے ہوں ادھاری پر اٹھاتا ہے
مجھے ہے یاد دو جوڑی فقط اس کے ہیں کُل کپڑے
وہ اپنا آپ کھوتا ہے تو گھر کیوں کر چلاتا ہے
ذرا سوچو زمانے کے ستم کو کیوں بھلاتا ہے
وہ اپنے اور پرائے جتنے ہیں رشتے نبھاتا ہے
میں آنکھیں بند شب ساری اسے تکتا رہا ہوں بس
ستاروں سے بھی روشن، ذہن میں وہ ٹمٹماتا ہے
بڑا اچھا علیٓ لگتا ہے سن کر فخر ہوتا ہے
جہاں بھر میں مری گن کامیابی کے وہ گاتا ہے