تجھ سے ہی مانگتا ہوں ‘ دونوں جہاں کی خوشیاں
تیرا ہی نام لے کر ‘ کی میں نے ابتدا ہے
تیرے کرم سے قائم ‘ ہے آج میری ہستی
پرور دگار ِ عالم ‘ تیرا ہی آسرا ہے
میں تجھ کو یاد رکھوں ‘ اور خود کو بھول جائوں
اب میری بندگی کی ‘ بس یہ ہی انتہا ہے
ہوں مطمئن خدایا ‘ اس تیری بندگی سے
مجھ پہ فضل ہے تیرا ‘ کیوں کہ مرا خدا ہے
جب سے ہے تو نے بھیجا ‘ آدم کو اس زمیں پر
دنیا کی نعمتوں کا ‘ کچھ اور ہی مزا ہے
دیتا ہے سب کو روزی ‘ کافر ہو یا مسلماں
تیری عطا کا مولا ‘ کیسا یہ ماجرا ہے
تو نے بنایا ہمکو ‘ بس ایک ہی طرح سے
فطرت میں آدمی گو ‘ ہر اک جدا جدا ہے
تیری عطا کے صدقے ‘ جس باغ کو بھی دیکھو
پھولوں سے اور پھلوں سے ‘ اب خوب ہی لدا ہے
تاروں کو دیکھو شب میں ‘ سورج کو جب سحر میں
تیرے ہی فن کا جادو ‘ سر چڑھ کے بولتا ہے
پختہ یقیں ہے ہم کو ‘ تو بخش دے گا سب کو
تو رب ِ دو جہاں ہے ‘ یہ تیری اک ادا ہے
ہم ہیں خطا کے پتلے ‘ ہم ہیں سدا کے عاصی
تو معاف کردے ہم کو ‘ گرچہ کڑی سزا ہے
کر دے تو در گز ر اب ‘ اپنی سبھی خطائیں
یہ آرزو ہے میری ‘ یہ میری التجا ہے
تجھ سے ہی مانگتا ہوں میں بھیک اب کرم کی
اوصاف کی ہمیشہ ‘ تجھ سے یہی دعا ہے