تم کہتے ہو کہ سب کچھ بھول جاؤں
میں کیسے وہ مظالم بھول جاؤں
کہ جس حاکم نے میرے اہل نسب کو
بنا کوئی سبب سولی چڑھایا
یہ آنکھیں عینی شاید ہیں کہ کیسے
کئی لختِ جگر کو تم نے کاٹا
کئی ماؤں کے تم نے لال چھینے
کئی پھولوں کا تم نے باپ مارا
کہ محسن انصاف چاہتا ہے
ان آنکھوں کے لیے صاحب
کہ جن کو کبھی میں نے
کاجل سے سجایا تھا
اب آ کے دیکھ وہ منظر
کہ کیسے ان کی آنکھوں سے
کبھی آنسو نہ بہتے تھے
کہ اب تو خون بہتا ہے
وہ جو مسکان تھی ان کے
گلابی سرخ گالوں پر
کہ اس مسکان کی قیمت
بروز حشر دو گے تم
کہ اب حالات ہیں ایسے
وہ ہنسنا بھول بیٹھے ہیں
کسی کی یاد میں جل کر
وہ جینا بھول بیٹھے ہیں