یومِ اقبال 9 دسمبر 2019 کی مناسبت سے
بالِ جبریل کو زینت سے سجایاہواہے
اور اقبال کو ہر رنگ میں گایا ہوا ہے
کون کہتاہے کہ اقبال سے ملتا نہیں فیض
بے سروں کوبھی سنانے کو بلایا ہوا ہے
ہم نے اوصاف کی بنیاد پہ رتبے بانٹے
رہبری کرنے کو اندھوں کو لگایا ہوا ہے
یہ جوشاہین کشیدہ ہے مرے تکئے پر
خواب میں اس کو ہمالہ پہ اڑا یا ہوا ہے
ایک شمشیر سجا رکھی ہے گھر میں میں نے
اور ہواؤں میں اسے خوب چلایا ہوا ہے
مردِ مومن کے سے سجدوں کیلئے میں نے حضور
گھر میں اک گوشہ خاموش بنایا ہوا ہے
بنک کی اونچی عمارت کے وہ قیدی ٹہرے
شکوہ ماں نے جنھیں بچپن میں پڑھایا ہوا ہے
بحرِ ظلمات کبھی ڈھونڈ نہ پائے لیکن
اوقیانوس پہ طیارہ اڑایا ہوا ہے
تم نہ سمجھوگے خودی کیا ہے برادر مسعود
تم نے دنیا کو ہی معیار بنایا ہواہے
وہ جو کنجشکِ فرومایہ تھا کمبخت یہاں
کاخِ عالی پہ اسے ہم نے بٹھایا ہوا ہے