دل کی گلیوں میں آج بھی ہے مرے یار کا موسم
جانے کب آئے گا پھر لوٹ کے پیا ر کا موسم
پلکوں پہ ٹکی یہ خواب کی جھالر نہیں ٹوٹے
ٹھہر گیا ہے جو آنکھوں میں اب پھوار کاموسم
چاند تاروں سے جاناں تو مرا ذکر نہ کرنا
جاگنا راتوں میں نہ تڑپائے گا بہار کا موسم
کبھی تو روئے گا تو بھی کسی کی بانہوں میں
عذاب جاں پہ بنے گا جب مرے خمار کا موسم
وقت کی آندھی میں اڑتی ہوں میں پتے کی طرح
لگتا ہے زندگی کو اب ہر کوئ بے کار کا موسم
کاش لوٹ آئے غزل تنہا نہ بارش دیکھوں
کچھ لمحوں کے لیئے بدلے درو دیوار کا موسم