مجھ سے روٹھے ہو تو ذرا دیر تو رروٹھے ہی رہو
کتنے بھولے سے لگتے ہو تم
ان شکنوں میں
ماتھے پر جو ابھر جاتی ہیں تمہارے
ستاروں کی طرح کس قدر آبدار ہوجاتی ہیں
یہ نیلم سی آنکھیں
اچھا لگتا ہے سنو
نیلم پہ مجھے سرخی کا ورق
تمہارے غصے میں تو یقین جانو
مے کا آنکھوں سے چھلک جانے کا گمان ہوتا ہے
بس ذرا دیر ور روٹھو نا
میرے ناراض ساجن
تم جو ہوتے ہو خفا مجھ سے
تو مجھے خود پر بہت پیار آتا ہے
ایسا لگتا ہی مجھے ان لمحوں میں
گویا کوئی بت تراشا ہو میں نے
جس کی ہر سانس مجھے میری غلام لگتی ہی
چمک آنکھوں کی ماتھے کی شکن
لبوں کی ساکت ہنسی
روح کے پھیلے سے غبار اور دل کی ہلچل
مجھ سے کہتے ہیں
کتنا سندر ہی یہ روٹھا صنم تیرَا
خفا ہو تجھ سے تو
اور بھی حسین لگتا ہے
سنو
ذرا دیر تو روٹھے ہی رہو نا