پھر سے یہاں زوال حکومت پہ گفتگو
اسبا ب کی تلاش کی نا کا م جستجو
پھر سے عداوتوں کے محاذوں کا افتتاح
پوشیدہ اختلاف کا شہرہ ہے چا ر سُو
دھشت کی خونی موجوں کا غلبہ ہے ہر طرف
ہوتا ہے روز اک نیا ہنگا مہ اور غلوء
مسجد ، امام بارگا ہ ،درگا ہ اور مزا ر
اپنے لہو سے لوگ کیا کرتے ہیں وضوء
جب بھی پھٹے ہیں بم وہ قیامت ہی لا ئے ہیں
بکھرے پڑے تھے سڑکوں پہ انسان کے عضؤ
جب میکدے پہ ٹوٹی قیامت تو پھر وہا ں
اوندھے پڑے تھے جام ، زمیں پر بہی سبُو
زر کے لیئے جو بیچ دیں ذہن و ضمیر تک
ایسے ہی عالموں کو پکارا گیا ہے سُؤ
کل کے وزیر آ ج عتا بوں کی زد میں ہیں
حاضر ہیں شا ہ بھی آج رعائاء کے روبرو
کل تک جو در بدر تھے وہ مسند نشیں ہوئے
چیلے بغیر زہد و ریا ضت بنے گرؤ
بدلے ہیں وقت نے یہاں آ دا ب زندگی
افسر کو ماتحت بھی کہے آج منہ پہ تُو
اشہر کی زندگی کی ڈگر نہ بدل سکی
لڑتا ہے آج بھی وہ جہل سے یا ں دو بہ دُو