تیری دِید کی ہے مجھ کو طلب دِل پیاسا ہے تیری دِید کا
چاند تو ہو تُم میرے دوست مگر چاند ہو تُم عِید کا
عِید پِھر سے آئی ہے
آؤ گلے سے لگا لو یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
پِچھلے گِلے شِکوے مِٹا دو یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
ناجانے پِھر کب نصیب ہوں گے کِسے پتہ ہے
مِلتے ہیں دِن یہ کبھی کبھار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
پہن کے نئے کپڑے بدن پہ آنکھوں میں لگا کہ کاجل
خُوشبُو لگا کے سب ہُوئے تیار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
میٹھے کی بھر مار بہت ہے سَویَّاں بھی ہم پکا لیں گے
بُلائیں گے تُم کو دعوت پہ یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
دیکھتا ہوں میں جِس طرف تحفے تحائف بھی چل رہے ہیں
دِلا دیں گے تُم کو جو کہو گے یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
تیرے ساتھ عِید مناؤں میں ارمان ہے یہ میرے دِل کا
قسم ہے تُم کو تمہاری نہ کرنا تُم انکار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
عِید ہے یہ خوشیوں بھری عِیدی بھی ہمیں خوب مِلے گی
گھومیں پِھریں گے شہر بازار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
ایسا نہ ہو کہ تُم نہ مِلو اور ٹوٹ جائیں سب دِل کے سپنے
برسوں کیا ہے دِل نے تیرا انتظار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
میرے آنگن میں اگر تُم آؤ کروں گا پُھولوں کی برسات
سجا دوں گا سب گلیاں بازار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
تیری دِید کی طلب ہے درؔاز کی پُر نَم آنکھوں کو
تجھے دیکھنے کو ہیں بے قرار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
کہ عِید پِھر سے آئی ہے کہ عِید پِھر سے آئی ہے