Add Poetry

عِید پِھر سے آئی ہے۔۔۔

Poet: umar draaz By: umar draaz, gujrat

تیری دِید کی ہے مجھ کو طلب دِل پیاسا ہے تیری دِید کا
چاند تو ہو تُم میرے دوست مگر چاند ہو تُم عِید کا

عِید پِھر سے آئی ہے

آؤ گلے سے لگا لو یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے
پِچھلے گِلے شِکوے مِٹا دو یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

ناجانے پِھر کب نصیب ہوں گے کِسے پتہ ہے
مِلتے ہیں دِن یہ کبھی کبھار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

پہن کے نئے کپڑے بدن پہ آنکھوں میں لگا کہ کاجل
خُوشبُو لگا کے سب ہُوئے تیار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

میٹھے کی بھر مار بہت ہے سَویَّاں بھی ہم پکا لیں گے
بُلائیں گے تُم کو دعوت پہ یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

دیکھتا ہوں میں جِس طرف تحفے تحائف بھی چل رہے ہیں
دِلا دیں گے تُم کو جو کہو گے یار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

تیرے ساتھ عِید مناؤں میں ارمان ہے یہ میرے دِل کا
قسم ہے تُم کو تمہاری نہ کرنا تُم انکار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

عِید ہے یہ خوشیوں بھری عِیدی بھی ہمیں خوب مِلے گی
گھومیں پِھریں گے شہر بازار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

ایسا نہ ہو کہ تُم نہ مِلو اور ٹوٹ جائیں سب دِل کے سپنے
برسوں کیا ہے دِل نے تیرا انتظار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

میرے آنگن میں اگر تُم آؤ کروں گا پُھولوں کی برسات
سجا دوں گا سب گلیاں بازار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

تیری دِید کی طلب ہے درؔاز کی پُر نَم آنکھوں کو
تجھے دیکھنے کو ہیں بے قرار کہ عِید پِھر سے آئی ہے

کہ عِید پِھر سے آئی ہے کہ عِید پِھر سے آئی ہے
 

Rate it:
Views: 457
24 Jul, 2014
Related Tags on Occassional / Events Poetry
Load More Tags
More Occassional / Events Poetry
غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح
چند کمرے صحن میں منظر پذیر
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے
بے نوا و دلربا میر و وزیر
گھومتا رہتا بچارا بے زباں
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر
اس طرف ہمسائے میں ماسی چراغ
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
ہو گئے منظر سے غائب رانجھا ہیر
 
امید خواجہ
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets