فلائنگ افسر مریم مختار شہید کے نام - ' میری پرواز '
Poet: umair akbar tabish By: umair Akbar tabish , Rawalpindi میں بیٹی ہوں سر زمین پاک وطن کی
کہ جس کے خواب بچپن سے ہی کچھ انوکھے ہیں
جنہیں تعبیر کرنے میں زیادہ وقت نہیں دوں گی
بہت ہی کم لمحوں میں بہت ہی کم مدت میں
انہیں تعبیر کرنے میں مجھے پرواز کرنی ہے
کسی شاہین کے جیسے فلک کی چٹانوں پہ
مجھے اپنے خوابوں کی ابھی تعبیر کرنی ہے
کھلونا ہے جہاز میرا اسے تو میں اڑا لوں گی
پائلٹ بن کر فائٹر میں دنیا کو دکھا دوں گی
مجھے بچپن کے کوئی اور کھیل اچھے نہیں لگتے
کتابوں سے مجھے کبھی فرسٹ نہیں ملتی
پری ہوں میں ابو کی اڑ کر بھی دکھا دوں گی
میری ماں مجھ سے کہتی ہے سورج ہو تم بیٹا
جسے کوئی آنکھ بھر کر بھی کبھی دیکھا نہیں کرتا
میں کہتی ہوں سورج بن کے تم کو میں امی جن بتاؤں گی
بلند کر کے میں اپنا نام زمانے کو بتاؤں گی
لہو سے اپنے فلک پر میں پاکستان بناؤں گی
کہیں گیں دیکھ کر دشمن بھی بازی لے گیا ہم سے
پاکستان کی بیٹی ہے جس کا نام 'مریم' ہے
اڑایا ہے اس نے جہاز ایئر فورس کا جنگی
بتایا ہے بیٹی ہوں میں پاکستان کی سن لو ..
میں عورت ہوں ، عورت بھی کسی سے کم نہیں ہوتی
کچھ ایسا کام زمانے کو عجب کر کے دکھاؤں گی
ہتھیلی پہ میں جن اپنی رکھ کر ہی بتاؤں گی
پاکستان کی خاطر میں مر مٹ کر دکھاؤں گی
پرواز ایسی شجاحت کی میں کر دکھاؤں گی
بلند اپنے وطن کا میں ستارہ کر دکھاؤں گی
اے میرے وطن کی مٹی تیرے جانثاروں کو سلام
خاک و خون میں لپٹے ہوئے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے شہیدوں کو سلام
یہ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے تا قیامت با خدا
فضائوں کے محفظ سمندر کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروشان وطن
تمہارے گھر کے آنگن کو اور تمہاری ماؤں کو سلام
ہمیں کمزور نا سمجھنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاہنے والے ہیں ہم اور اللہ کے نام سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاوں گا کبھی میں فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
خاک و خوں میں لپٹے ہوے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے ان شہیدوں کو سلام
یہ سبز حلالی پرچم لہراتا رہے گا تا قیامت باخدا
فضاؤں کے مہافظ سمندروں کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروش وطن
تیرے گھر کے آنگن کو اور تیری مآؤں کو سلام
ھمیں کمزور نہ سمھجنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاھنے والے ہیں ھم الله کے نام کو سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاؤں گا کبھی اے فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
تجھ سے سپر، کوئی نہیں
اقبال نگیں ہے، تیرا مکیں
تجھ پر سایۂ عرشِ بریں
تو ہی نغمۂ حق، تو ہی مرا دین
تو سرزمینِ عشق، تو حق الیقین
اے مہرِ زمیں! اے نصرِ مبیں
"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا"
نہ لبھا سکے جسے، زلفِ حسیں
ایسے سپاہی! ہم مردِ صحرائی
اے ابنِ قاسم! تجھ کو قسم
رکھنا بھرم، شانِ جبیں
ہے فخر اپنا: بابر، غوری اور شاہین
توڑیں گے ترا زعم، اے عدوِ مبین
اے خدا! کر عطا، صبر و یقین
قائم رہے نظامِ نورِ مبین
مسلمانوں کی مسلمانی سے عاری ہے قدس کی بیٹی
اسرائیل کی کتے بھاگتے ہیں ہاتھ میں پتھر دیکھ کر
جیسے کہ اسلحے سے لیس کوئی شکاری ہے قدس کی بیٹی
وہ جانتی ہے نہ ایوبی نہ قاسم نہ طارق آئے گا کوئی
نہیں اب کسی مجاہد کی انتظاری ہے قدس کی بیٹی
دیکھ لو عاؔمر کہ لرزاں ہے اب یزید وقت
مثل زینبؓ جم کہ کھڑی ہے ہماری قدس کی بیٹی
کبھی اک لمحے کو سوچو
جس انقلاب کی خاطر
سر پہ باندھ کر کفنی
گھروں سے تم جو نکلے ہو
اُس انقلاب کا عنصر
کوئی سا اک بھی تم میں ہے؟
بازار لوٹ کے اپنے
دکانوں کو جلا دینا
ریاست کے ستونوں کو
بِنا سوچے گرا دینا
تباہی ہی تباہی ہے
خرابی ہی خرابی ہے
نہیں کچھ انقلابی ہے
نہیں یہ انقلابی ہے
سیاسی بُت کی چاہت میں
ریاست سے کیوں لڑتے ہو؟
فقط کم عقلی ہے یہ تو
جو آپس میں جھگڑتے ہو
گر انقلاب لانا ہے
تو پہلے خود میں ڈھونڈو تم
تمہارے بُت کے اندر ہی
جو شخص اک سانس لیتا ہے
کیا وہ سچ میں زندہ ہے؟
وہ اپنے قولوں، عملوں پر
راضی یا شرمندہ ہے؟
بِنا اصلاح کے اپنی
انقلاب آیا نہیں کرتے
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے
اِسے لایا نہیں کرتے







