ماں کا مُصّلہ
Poet: Shakira Nandini By: Shakira Nandini, Oportoیہ ممکن ہے
کہ تُم کو لوٹنے میں دیر ہو جائے
دئیے بُجھنے کے باعث
جانی بُوجھی راہ کھو جائے
مرا دل
جاگنے کی چاہ کے ہوتے بھی سو جائے
بہر صورت ،اگر لوٹ آئو
مرے کمرے میں کچھ پَل
خامشی سے بیٹھ رہنا تم
یہاں رکھی ہوئی ہر شئے
بہت برسوں سے چُپ چُپ ہے
یہ جب باتیں کریں
خاموش رہنا، کچھ نہ کہنا تم
بس اِن کی گفتگو سُننا
ذرا سا کرب سہنا تم
مجھے معلوم ہے
چُھٹی تمہاری مُختصر ہو گی
اسی اِک آدھ ہفتے میں
ہزاروں کام بھی ہوں گے
بہت مصروفیت اوڑھے
وہ صبح و شام بھی ہوں گے
مگر ٹھہرو ،رُکو
اِک بات تو سُن لو
مرے کپڑے مرا بستر
سبھی خیرات کر دینا
کتابیں اور تحریریں
بھلے ردی میں دے دینا
صفائی گھر کی کروانا
ہر اک شئے کو اُجلوانا
مگر میرا مُصلہ
ہو سکے تو ساتھ لے جانا
اسے ہرگز نہ دھلوانا
یہ مَیلا ہی سہی
لیکن مرا برسوں کا ساتھی ہے
یہ میرے کرب سے واقف ہے
میرا رازداں ہے یہ
مرا محرم ،مرا ساتھی
مری جائے اماں ہے یہ
بظاہر ایک ردی شئے
مگر جنسِ گراں ہے یہ
مری آہ و بُکا
رچ بس گئی ہے
اس کے ریشوں میں
تمہارے واسطے
شب بھر دعائیں اس پہ مانگی ہیں
مرے سجدوں میں جو ٹپکے تھے آنسو
جذب ہیں اس میں
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں روٹھی روٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب آؤ کھیلیں ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ ندیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں






