مجھ سے اب دور زمانہ یہ الٰہی کیوں ہے
میرے حصّے میں فقط اتنی سیاہی کیوں ہے
آج سرحد پہ تو دشمن کے ہیں پہرے ہر سُو
پھر بھی سویا ہوا اُمت کا سپاہی کیوں ہے
اپنی ہستی کے وفادار زمانے والو
بامِ تقدیر پہ چاہت کو سزا ہی کیوں ہے
مجھ کو دربارِ محبت میں تو سچ کہنے دو
تیرے دربار میں تیری ہی گواہی کیوں ہے
اپنے اعمال خیالوں کے فلک پر رکھ کر
اپنا ایمان خدا سے یہ دعا ہی کیوں ہے
اپنے کردار پہ تتلی بھی تو سوچے وشمہ
ان بہاروں میں بھی پھولوں پہ تباہی کیوں ہے