عمل کی رہِ گزاروں میں بہت سے امتحاں آے
تمہارے اُمّتی ہر امتحاں میں کامراں آے
صدا صلِّ علا کی دہر میں ہر اک زباں پر تھی
شہِ دیں بن کے جس دن رحمتِ کون مکاں آے
زباں پر ربِّ ہب لی اُمّتی کا وِرد جاری تھا
نبی جب دہر میں بن کر شفیعِ عاصیاں آے
یتیموں ، مفلسوں ، بیواوں ، مظلوموں کی نصرت کو
ذرا دیکھو تو کیسے داعیِ امن اماں آے
مہکنے لگتی تھیں گلیاں گذرتے جس طرف آقا
سبھی یہ جان جاتے تھے کہ شاہِ دو جہاں آے
فرشتو ! اب ادب سے تم کھڑے ہوجاو صف بستہ
سوئے عرشِ عُلا محبوبِ ربِّ دوجہاں آے
خدا نے حکم رضواں کو دیا جنت سجانے کا
شبِ معراج کے دولہا وہ مختارِ جناں آے
وفورِ عشق میں نعتِ نبی جب گنگنائی ہے
فرشتے آسماں سے چومنے میری زباں آے
مُشاہدؔ کا سرِمغرور خم ہوجائے گا یارو
نظر کے سامنے طیبہ کا دلکش جو سماں آے