میرے قاتل یوں بے نقاب آئے
لے کے مرقد پہ وہ گُلاب آئے
اُن کا آنا عجب قیامت ہے
جیسے مغرب سے آفتاب آئے
کیجے پہلو تہی تو کیا حاصل!
پاس رہیے تو اجتناب آئے
کھینچ لائے ہو طُور تک ہم کو
اب نہ کہیو "مجھے حجاب آئے"
بے سُخَن بے نوا چلے تھے ہم
تیرے کوچے سے باکتاب آئے
اُس کو دیوان کر لِیا کیجے
شعر در شعر جو عذاب آئے
تھک کے تم کو بُھلا دیا ظالم
"آج تم یاد بے حساب آئے"