کیسی تاویل مِرے دوست، بہانہ کیسا زخم جاگیرِ محبت ہیں، چھپانا کیسا دن کے ڈھلتے ہی تری یاد کی خوشبو بن کر جاگ اٹھتا ہے کوئی درد پرانا کیسا ہم نے ہر موڑ پہ بیچا ہے اصولوں کو نوید اور اب ہم کو شکایت، ہے زمانہ کیسا