میں سر پھری تھی دیارِ حریفِ جاں میں کہیں
اسی لیے تو حواری سلام چھوڑ گئے
شربیوں پہ یہ الزام ہے کہ گلیوں میں
یہ مہ جبیوں کی چوکٹ پہ جام چھوڑ گئے
چلے گئے ہیں مضافات سے سبھی شاعر
مگر وہ اپنا یہ ہو سو مقام چھوڑ گئے
چھتوں پہ چاند ٹہلنے لگا گاؤں مین
جو لکھنے والے تھے افسردہ شام چھوڑ گئے
کوئی کہانی مکمل نہیں کتابوں میں
وہ جاتے جاتے ادھورہ کلام چھوڑ گئے
انہیں کے نام یہ کلیاں، گلاب ہیں وشمہ
گلی گلی میں محبت کا نام چھوڑ گئے