دل_ ویران کو آباد کرتی ہے
یاد_ خدا شاد کرتی ہے
علاج ہے ہر اک درد کا
ہر مرض سے شفایاب کرتی ہے
سوز_ دل اور چشم_ نم چاہیے
پھر ہر غم سے آزاد کرتی ہے
موت کیا ہے؟ زندگی کیا ہے؟
حقیقت کا راز فاش کرتی ہے
جسے سمجھتے ہیں انجام اپنا
وہیں سے سفر آغاز کرتی ہے
پہناتی ہے جبہٴ درویشی
حسرتوں سے بے نیاز کرتی ہے
ہو جاتے ہیں کام خود بخود
قسمت خود تلاش کرتی ہے
مقام_ حیرت ہے جہاں
وہاں پر ہمکلام کرتی ہے
کہیں منصور بنا کر یہ
بندے کو بے نام کرتی ہے
پردے اٹھنے لگتے ہیں
اور عقل کو حیران کرتی ہے
کہیں سوز_ رومیؒ ہوتا ہے پیدا
قدرت انتخاب کرتی ہے
صوفی اور درویش کے دل میں
فقر کی دنیا آباد کرتی ہے
یاد_ الله سبحان و تعالٰی
بندہٴ عام کو خاص کرتی ہے