4 ،دسمبر
سوچتی ہوں اسے جنم دن کی
مبارک باد کیسے دوں ؟
وقت کی ستم ظریفی ہے
یا
اجل کی بے رحم دسترس
کہ آج ہی انجم کو بے نور ہونا تھا
قمر کے سر سے چادر ڈھلک گئی تھی
فضائیں مضمحل تھیں خونچکاں ہوائیں
عجب اندھیر نگری تھی
جہاں اک سورج ڈوب گیا تھا
قلم کی سیاہی میں لہو کی سرخی رچی تھی
وہ سارے بوجھل اور بے معنی سے راز
طشت ازبام تھے
صدا کسی ان کہے سخن کی
ڈوھونڈتی رہی مکاں اپنا
رفیق سفر کی بے اعتنائی
شکستہ پائی میں جگ ہنسائی بہت تھی
دسمبر کا سالہاسال کا سفر
میں دوستی کے پھولوں کی یاد طاقچے پر سجائے
کب سے ان لمحوں کی منتظر ہوں
جب
فصل بہار چپکے سے میرے آنگن میں اتر آئے
غم روزگار کی گھنی ظلمت
مرے گھر کا راستہ بھول جائے
دائمی زندگی کا جنم دن
ہم ایک ساتھ منائیں