Aabaadiyon Men Dasht Ka Manzar Bhi Aaega
Poet: Naushad Ali By: Haris, khiAabaadiyon Men Dasht Ka Manzar Bhi Aaega
Guzroge Shahr Se To Mera Ghar Bhi Aaega
Dair O Haram Men Khak Udate Chale Chalo
Sarshaar Ho Ke Ja Chuke Yaran-E-Mai-Kada
Sairab Ho Ke Shad Na Hon Rah-Rawan-E-Shauq
Jis Din Ki Muddaton Se Hai Naushad Justuju
Baitha Hun Kab Se Kucha-E-Qatil Men Sar-Nigun
Itni Bhi Yaad Khub Nahin Ahd-E-Ishq Ki
Nazron Men Tark-E-Ishq Ka Manzar Bhi Aaega
Shisha Agar Banoge To Patthar Bhi Aaega
Rudad-E-Ishq Is Liye Ab Tak Na Ki Bayan
Is Waste Uthate Hain Kanton Ke Naz Hum
Kya Jaane Din Hamen Wo Mayassar Bhi Aaega
Raste Men Tishnagi Ka Samundar Bhi Aaega
Qatil Ke Hath Men Kabhi Khanjar Bhi Aaega
Ek Din To Apne Hath Gul-E-Tar Bhi Aaega
Tum Jis Ki Justuju Men Ho Wo Dar Bhi Aaega
Dil Men Jo Dard Hai Wo Zaban Par Bhi Aaega
Achchhi Nahin Nazakat-E-Ehsas Is Qadar
Saqi Hamare Nam Ka Saghar Bhi Aaega
یاد رکھنے کی بات یاد کرو
کون چھوٹا کہاں کہاں چھوٹا
راہ کے حادثات یاد کرو
ابھی کل تک وفا کی راہوں میں
تم بھی تھے میرے ساتھ یاد کرو
مجھ سے کیا پوچھتے ہو حال مرا
خود کوئی واردات یاد کرو
جس دم آنکھیں ملی تھی آنکھوں سے
تھی کہاں کائنات یاد کرو
بھول آئے جبیں کو رکھ کے کہاں
کہاں پہنچے تھے رات یاد کرو
دل کو آئینہ گر بنانا ہے
آئینے کے صفات یاد کرو
نکلے گا چاند انہیں اندھیروں سے
ان سے ملنے کی رات یاد کرو
چھوڑو جانے دو جو ہوا سو ہوا
آج کیوں کل کی بات یاد کرو
کرنا ہے شاعری اگر نوشادؔ
میرؔ کا کلیات یاد کرو
نکلے آنکھوں سے اگر دل کے سہارے آنسو
حاصل خون جگر دل کے ہیں پارے آنسو
بے بہا لعل و گہر ہیں یہ ہمارے آنسو
ہے کوئی اب جو لگی دل کی بجھائے میری
ہجر میں روکے گنوا بیٹھا ہوں سارے آنسو
اس مسیحا کی جو فرقت میں ہوں رویا شب بھر
بن گئے چرخ چہارم کے ستارے آنسو
خون دل خون جگر بہہ گیا پانی ہو کر
کچھ نہ کام آئے محبت میں ہمارے آنسو
مجھ کو سونے نہ دیا اشک فشانی نے مری
رات بھر گنتے رہے چرخ کے تارے آنسو
وہ سنور کر کبھی آئے جو تصور میں مرے
چشم مشتاق نے صدقے میں اتارے آنسو
پاس رسوائی نے چھوڑا نہ سکوں کا دامن
گرتے گرتے رکے آنکھوں کے کنارے آنسو
لطف اب آیا مری اشک فشانی کا حضور
پیاری آنکھوں سے کسی کے بہے پیارے آنسو
میری قسمت میں ہے رونا مجھے رو لینے دو
تم نہ اس طرح بہاؤ مرے پیارے آنسو
ماہ و انجم پہ نہ پھر اپنے کبھی ناز کرے
دیکھ لے چرخ کسی دن جو ہمارے آنسو
یوں ہی طوفاں جو اٹھاتے رہے کچھ دن نوشادؔ
آگ دنیا میں لگا دیں گے ہمارے آنسو
ابھی زندگی کے بہانے بہت ہیں
یہ دنیا حقیقت کی قائل نہیں ہے
فسانے سناؤ فسانے بہت ہیں
ترے در کے باہر بھی دنیا پڑی ہے
کہیں جا رہیں گے ٹھکانے بہت ہیں
مرا اک نشیمن جلا بھی تو کیا ہے
چمن میں ابھی آشیانے بہت ہیں
نئے گیت پیدا ہوئے ہیں انہیں سے
جو پرسوز نغمے پرانے بہت ہیں
در غیر پر بھیک مانگو نہ فن کی
جب اپنے ہی گھر میں خزانے بہت ہیں
ہیں دن بدمذاقی کے نوشادؔ لیکن
ابھی تیرے فن کے دوانے بہت ہیں
تم اپنے جرم کو میرے حساب میں لکھنا
حدیث دل کو قلم سے نہ آشنا کرنا
کہانیاں ہی ہمیشہ جواب میں لکھنا
مجھے سمجھنے کی کوشش ہے شغل لا حاصل
جو چاہنا وہی تم میرے باب میں لکھنا
وہ کہتے ہیں لکھو نامہ مگر لحاظ رہے
ہمارا نام نہ ہرگز خطاب میں لکھنا
مٹا مٹا جو رہا ظلمتوں کے پردے میں
وہ حرف حق ورق آفتاب میں لکھنا
ہمیشہ جس کی ہوس کو تھی آرزوئے بہشت
اسی کی روح رہی تھی عذاب میں لکھنا
جو بات لکھنے کو تھا مضطرب بہت نوشادؔ
وہی میں بھول گیا اضطراب میں لکھنا
ہمیں سے یہ تماشہ ہے نہ ہم ہوتے تو کیا ہوتا
نہ ایسی منزلیں ہوتیں نہ ایسا راستہ ہوتا
سنبھل کر ہم ذرا چلتے تو عالم زیر پا ہوتا
گھٹا چھاتی بہار آتی تمہارا تذکرہ ہوتا
پھر اس کے بعد گل کھلتے کہ زخم دل ہرا ہوتا
زمانے کو تو بس مشق ستم سے لطف لینا ہے
نشانے پر نہ ہم ہوتے تو کوئی دوسرا ہوتا
ترے شان کرم کی لاج رکھ لی غم کے ماروں نے
نہ ہوتا غم تو اس دنیا میں ہر بندہ خدا ہوتا
مصیبت بن گئے ہیں اب تو یہ سانسوں کے دو تنکے
جلا تھا جب تو پورا آشیانہ جل گیا ہوتا
ہمیں تو ڈوبنا ہی تھا یہ حسرت رہ گئی دل میں
کنارے آپ ہوتے اور سفینہ ڈوبتا ہوتا
ارے او جیتے جی درد جدائی دینے والے سن
تجھے ہم صبر کر لیتے اگر مر کے جدا ہوتا
بلا کر تم نے محفل میں ہمیں غیروں سے اٹھوایا
ہمیں خود اٹھ گئے ہوتے اشارہ کر دیا ہوتا
ترے احباب تجھ سے مل کے پھر مایوس لوٹ آئے
تجھے نوشادؔ کیسی چپ لگی کچھ تو کہا ہوتا
دیکھ کر چپ تری تصویر پہ رونا آیا
کیا حسیں خواب محبت نے دکھائے تھے ہمیں
جب کھلی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا
اشک بھر آئے جو دنیا نے ستم دل پہ کئے
اپنی لٹتی ہوئی جاگیر پہ رونا آیا
خون دل سے جو لکھا تھا وہ مٹا اشکوں سے
اپنے ہی نامے کی تحریر پہ رونا آیا
جب تلک قید تھے تقدیر پہ ہم روتے تھے
آج ٹوٹی ہوئی زنجیر پہ رونا آیا
راہ ہستی پہ چلا موت کی منزل پہ ملا
ہم کو اس راہ کے رہ گیر پہ رونا آیا
جو نشانے پہ لگا اور نہ پلٹ کر آیا
ہم کو نوشادؔ اسی تیر پہ رونا آیا






