Aao Kabe Se Uthen Su-E-Sanam-Khana Chalen
Poet: Josh Malihabadi By: Asif, khiAao Kabe Se Uthen Su-E-Sanam-Khana Chalen
Taba-E-Faqr Kahe Sawlat-E-Shahana Chalen
Chang O Barbat Pe Nachate Hue Turkana Chalen
Khushk Zarron Pe Machal Jae Shamim O Tasnim
Girya-E-Nim-Shab O Aah-E-Sahar-Gahi Ko
Ta Na Mahsus Ho Wamandagi-E-Rah-E-Daraaz
Phenk Kar Subha O Sajjada O Dastar O Kulah
Naghma O Saghar O Taus O Ghazal Ke Hamrah
Aao Ai Zamzama-Sanjaan-E-Sara Parda-E-Gul
Su-E-Khum-Khana Pai-E-Sajda-E-Rindana Chalen
Yun Maasi Ka Lundhate Hue Paimana Chalen
Khidmat-E-Pir-E-Mughan Men Pai-E-Nazrana Chalen
Zulf-E-Khuban Ka Sunate Hue Afsana Chalen
Ba-Hawa-E-Nafas-E-Taza-E-Jaanana Chalen
Sabt Karte Hue Yun Laghzish-E-Mastana Chalen
Kanp Uthe Bargah-E-Sar-E-Afaf-E-Malakut
Ba Rabab O Daf O Tambura O Paimana Chalen
Daman-E-Josh Men Phir Bhar Ke Mata-E-Kaunain
اے مدعائے خلق مرا مدعا نہ پوچھ
کیا کہہ کے پھول بنتی ہیں کلیاں گلاب کی
یہ راز مجھ سے بلبل شیریں نوا نہ پوچھ
جتنے گدا نواز تھے کب کے گزر چکے
اب کیوں بچھائے بیٹھے ہیں ہم بوریا نہ پوچھ
پیش نظر ہے پست و بلند رہ جنوں
ہم بے خودوں سے قصۂ ارض و سما نہ پوچھ
سنبل سے واسطہ نہ چمن سے مناسبت
اس زلف مشکبار کا حال اے صبا نہ پوچھ
صد محفل نشاط ہے اک شعر دلنشیں
اس بربط سخن میں ہے کس کی صدا نہ پوچھ
کر رحم میرے جیب و گریباں پہ ہم نفس
چلتی ہے کوئے یار میں کیونکر ہوا نہ پوچھ
رہتا نہیں ہے دہر میں جب کوئی آسرا
اس وقت آدمی پہ گزرتی ہے کیا نہ پوچھ
ہر سانس میں ہے چشمۂ حیوان و سلسبیل
پھر بھی میں تشنہ کام ہوں یہ ماجرا نہ پوچھ
بندہ ترے وجود کا منکر نہیں مگر
دنیا نے کیا دیئے ہیں سبق اے خدا نہ پوچھ
کیوں جوشؔ راز دوست کی کرتا ہے جستجو
کہہ دو کوئی کہ شاہ کا حال اے گدا نہ پوچھ
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی
ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح
وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر
مگر جو گھر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیال عیش رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآل گل مگر کیا زور فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسم آ ہی جاتا ہے
پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا
یہی تو ہیں دو ستون محکم انہیں پہ قائم ہے نظم عالم
یہی تو ہے راز خلد و آدم نگاہ میری شباب تیرا
صبا تصدق ترے نفس پر چمن ترے پیرہن پہ قرباں
نسیم دوشیزگی میں کیسا بسا ہوا ہے شباب تیرا
تمام محفل کے روبرو گو اٹھائیں نظریں ملائیں آنکھیں
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن سوال میرا جواب تیرا
ہزار شاخیں ادا سے لچکیں ہوا نہ تیرا سا لوچ پیدا
شفق نے کتنے ہی رنگ بدلے ملا نہ رنگ شباب تیرا
ادھر مرا دل تڑپ رہا ہے تری جوانی کی جستجو میں
ادھر مرے دل کی آرزو میں مچل رہا ہے شباب تیرا
کرے گی دونوں کا چاک پردہ رہے گا دونوں کو کر کے رسوا
یہ شورش ذوق دید میری یہ اہتمام حجاب تیرا
جڑیں پہاڑوں کی ٹوٹ جاتیں فلک تو کیا عرش کانپ اٹھتا
اگر میں دل پر نہ روک لیتا تمام زور شباب تیرا
بھلا ہوا جوشؔ نے ہٹایا نگاہ کا چشم تر سے پردہ
بلا سے جاتی رہیں گر آنکھیں کھلا تو بند نقاب تیرا
محبت اصل میں ہے روح کا بیدار ہو جانا
نوید عیش سے اے دل ذرا ہشیار ہو جانا
کسی تازہ مصیبت کے لیے تیار ہو جانا
وہ ان کے دل میں شوق خودنمائی کا خیال آنا
وہ ہر شے کا تبسم کے لیے تیار ہو جانا
مزاج حسن کو اب بھی نہ سمجھو تو قیامت ہے
ہمارا اور وفا کے نام سے بے زار ہو جانا
سحر کا اس طرح انگڑائی لینا دل فریبی سے
ادھر شاعر کے محسوسات کا بیدار ہو جانا
توسل سے ترے دل میں بھروں گا قوتیں برقی
ذرا میری طرف بھی اے نگاہ یار ہو جانا
وہ آرائش میں سب قوت کسی کا صرف کر دینا
تحمل میں وہ ہر کوشش مری بے کار ہو جانا
معاذ اللہ اب یہ رنگ ہے دنیا کی محفل کا
خدا کا نام لینا اور ذلیل و خوار ہو جانا
رگوں سے خون سارا زہر بن کر پھوٹ نکلے گا
ذرا اے جوشؔ ضبط شوق سے ہشیار ہو جانا
شبنم کو پی رہی ہے کرن آفتاب کی
بجھنے پہ دل ہے سانس میں بھی ضابطہ نہیں
ظالم دہائی ہے ترے زور شباب کی
منظور ہے خدا کو تو پہنچوں گا روز حشر
چہرے پہ خاک مل کے در بوتراب کی
صورت پرست میری نگاہوں نے اصل میں
دل کیا مرے وجود کی مٹی خراب کی
ہر پنکھڑی کے طاق میں ہنس ہنس کے صبح کو
شمعیں جلا رہی ہے کرن آفتاب کی
اٹھ کہ فریاد رس عاشق بیمار آیا
بخت خوابیدہ گیا ظلمت شب کے ہم راہ
صبح کا نور لیے دولت بیدار آیا
خیر سے باغ میں پھر غنچہ گل رنگ کھلا
شکر ہے دور میں پھر ساغر سرشار آیا
جھوم اے تشنۂ گل بانگ نگار عشرت
کہ لب یار لیے چشمۂ گفتار آیا
شکر ایزد کہ وہ سرخیل مسیحا نفساں
زلف بر دوش پئے پرسش بیمار آیا
رخصت اے شکوۂ قسمت کہ سر بزم نشاط
ناسخ مسئلہ اندک و بسیار آیا
للہ الحمد کہ گلزار میں ہنگام صبوح
حکم آزادئ مرغان گرفتار آیا
غنچۂ بستہ چٹک جاگ اٹھی موج صبا
شعلۂ حسن بھڑک مصر کا بازار آیا
خوش ہو اے عشق کہ پھر حسن ہوا مائل ناز
مژدہ اے جنس محبت کہ خریدار آیا
اے نظر شکر بجا لا کہ کھلی زلف دراز
اے صدف آنکھ اٹھا ابر گہربار آیا
بادباں ناز سے لہرا کے چلی باد مراد
کارواں عید منا قافلہ سالار آیا
خوش ہو اے گوش کہ جبریل ترنم چہکا
مژدہ اے چشم کہ پیغمبر انوار آیا
خوش ہو اے پیر مغاں جوشؔ ہوا نغمہ فروش
مژدہ اے دختر رز رند قدح خوار آیا






