Abbas Rizvi Poetry, Ghazals & Shayari
Abbas Rizvi Poetry allows readers to express their inner feelings with the help of beautiful poetry. Abbas Rizvi shayari and ghazals is popular among people who love to read good poems. You can read 2 and 4 lines Poetry and download Abbas Rizvi poetry images can easily share it with your loved ones including your friends and family members. Up till, several books have been written on Abbas Rizvi Shayari. Urdu Ghazal readers have their own choice or preference and here you can read Abbas Rizvi poetry in Urdu & English from different categories.
- LATEST POETRY
- اردو
میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا
وہ ایک شعلے کی صورت مرے نفس میں رہا
نظر اسیر اسی چشم مے فشاں کی رہی
مرا بدن بھی مری روح کے قفس میں رہا
چمن سے ٹوٹ گیا برگ زرد کا رشتہ
نہ آب و گل میں سمایا نہ خار و خس میں رہا
تمام عمر کی بے تابیوں کا حاصل تھا
وہ ایک لمحہ جو صدیوں کے پیش و پس میں رہا
وہ ایک شاعر آشفتہ سر کہ مجھ میں تھا
ہوا کا ساتھ نہ دے کر ہوا کے بس میں رہا
کسی خیال کے نشے میں دن گزرتے رہے
میں اپنی عمر کے انیسویں برس میں رہا Ghani
وہ ایک شعلے کی صورت مرے نفس میں رہا
نظر اسیر اسی چشم مے فشاں کی رہی
مرا بدن بھی مری روح کے قفس میں رہا
چمن سے ٹوٹ گیا برگ زرد کا رشتہ
نہ آب و گل میں سمایا نہ خار و خس میں رہا
تمام عمر کی بے تابیوں کا حاصل تھا
وہ ایک لمحہ جو صدیوں کے پیش و پس میں رہا
وہ ایک شاعر آشفتہ سر کہ مجھ میں تھا
ہوا کا ساتھ نہ دے کر ہوا کے بس میں رہا
کسی خیال کے نشے میں دن گزرتے رہے
میں اپنی عمر کے انیسویں برس میں رہا Ghani
ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں ہم ترے حسن جہاں تاب سے ڈر جاتے ہیں
ایسے مفلس ہیں کہ اسباب سے ڈر جاتے ہیں
خوف ایسا ہے کہ دنیا کے ستائے ہوئے لوگ
کبھی منبر کبھی محراب سے ڈر جاتے ہیں
رات کے پچھلے پہر نیند میں چلتے ہوئے لوگ
خون ہوتے ہوئے مہتاب سے ڈر جاتے ہیں
شاد رہتے ہیں اسی جامۂ عریانی میں
ہاں مگر اطلس و کمخواب سے ڈر جاتے ہیں
کبھی کرتے ہیں مبارز طلبی دنیا سے
اور کبھی خواہش بے تاب سے ڈر جاتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ چلئے اسی کوچے کی طرف
ہم تری بزم کے آداب سے ڈر جاتے ہیں
ہم تو وہ ہیں کہ جنہیں راس نہیں کوئی نگر
کبھی ساحل کبھی گرداب سے ڈر جاتے ہیں Faizan
ایسے مفلس ہیں کہ اسباب سے ڈر جاتے ہیں
خوف ایسا ہے کہ دنیا کے ستائے ہوئے لوگ
کبھی منبر کبھی محراب سے ڈر جاتے ہیں
رات کے پچھلے پہر نیند میں چلتے ہوئے لوگ
خون ہوتے ہوئے مہتاب سے ڈر جاتے ہیں
شاد رہتے ہیں اسی جامۂ عریانی میں
ہاں مگر اطلس و کمخواب سے ڈر جاتے ہیں
کبھی کرتے ہیں مبارز طلبی دنیا سے
اور کبھی خواہش بے تاب سے ڈر جاتے ہیں
جی تو کہتا ہے کہ چلئے اسی کوچے کی طرف
ہم تری بزم کے آداب سے ڈر جاتے ہیں
ہم تو وہ ہیں کہ جنہیں راس نہیں کوئی نگر
کبھی ساحل کبھی گرداب سے ڈر جاتے ہیں Faizan
گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے گزر گیا وہ زمانہ وہ زخم بھر بھی گئے
سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گئے
اسی نظر کے لئے بے قرار رہتے تھے
اسی نگاہ کی بے تابیوں سے ڈر بھی گئے
ہماری راہ میں سایہ کہیں نہیں تھا مگر
کسی شجر نے پکارا تو ہم ٹھہر بھی گئے
یہ سیل اشک ہے برباد کر کے چھوڑے گا
یہ گھر نہ پاؤ گے دریا اگر اتر بھی گئے
سحر ہوئی تو یہ عقدہ بھی طائروں پہ کھلا
کہ آشیاں ہی نہیں اب کے بال و پر بھی گئے
بہت عزیز تھی یہ زندگی مگر ہم لوگ
کبھی کبھی تو کسی آرزو میں مر بھی گئے
شجر کے ساتھ کوئی برگ زرد بھی نہ رہا
ہوا چلی تو بہاروں کے نوحہ گر بھی گئے Zaid
سفر تمام ہوا اور ہم سفر بھی گئے
اسی نظر کے لئے بے قرار رہتے تھے
اسی نگاہ کی بے تابیوں سے ڈر بھی گئے
ہماری راہ میں سایہ کہیں نہیں تھا مگر
کسی شجر نے پکارا تو ہم ٹھہر بھی گئے
یہ سیل اشک ہے برباد کر کے چھوڑے گا
یہ گھر نہ پاؤ گے دریا اگر اتر بھی گئے
سحر ہوئی تو یہ عقدہ بھی طائروں پہ کھلا
کہ آشیاں ہی نہیں اب کے بال و پر بھی گئے
بہت عزیز تھی یہ زندگی مگر ہم لوگ
کبھی کبھی تو کسی آرزو میں مر بھی گئے
شجر کے ساتھ کوئی برگ زرد بھی نہ رہا
ہوا چلی تو بہاروں کے نوحہ گر بھی گئے Zaid
Poetry Images