Abhi Kuchh Din Lagenge Khwab Ko Tabir Hone Men
Poet: Asghar Nadeem Syed By: Asif, khiAbhi Kuchh Din Lagenge Khwab Ko Tabir Hone Men
Kisi Ke Dil Men Apne Nam Ki Shama Jalane Men
Bahut Sa Daras Sah Lenge
Mohabbat Ki Kawita Ko Hawa Ke Rukh Pe Lane Men
Abhi Kuchh Din Lagenge
Dasht Men Phulon Ka Gul-Dasta Sajaane Men
Hum Pas Baithenge
Nae Kuchh Marhale Taskhir Karne Men
Kisi Anmol Saat Men Kisi Naraaz Sathi Ko Zara Sa Pas Lane Men
Bas Ek Guzre Hue Kal Se Pare
Bahut Si Baat Kar Lenge!
Abhi Kuchh Din Lagenge
Raat Ki Diwar Men Ek Dar Banane Men
Magar Ye Din Ziyaada To Nahin Honge
Dard Ka Parcham Banane Men
Abhi Kuchh Din Lagenge
Bas Ek Mausam Ki Duri Par
Mere Ghaalib, Mere Tagore Ko Apna Banane Men
Abhi Kuchh Din Lagenge
Kisi Ke Shahr Ko Daryaft Karne Men
Bas Ek Saat Ki Nazdiki Men
Purani Nafraton Ko Bhul Jaane Men
Muqaddar Men Lagi Ek Ganth Ko Aazad Karne Men
Baham Mashware Honge
Purane Zakhm Pe Marham Lagane Men
Kahin Hum Tum Milenge
تو اسے مت اٹھانا
کبھی رات کی شال سے چاند سالوں کی مٹھی سے خوشبو زمینوں کی جھولی سے خوراک
اور دل سے قربت کی خواہش گرے
تو اسے اٹھانا
کبھی شام کے گھونسلے سے پرندہ فجر سے عبادت کا چوغا پہاڑوں سے
سرما کا پہلا مینہ گرے
تو اسے مت اٹھانا
کبھی آسمانوں سے حرف مناجات شاہین کی آنکھوں سے آنسو ہواؤں
سے لمبے سفر کی حکایت
غلاموں کے دامن سے آزاد صبحوں کی ساعت گرے
تو اسے مت اٹھانا
کبھی پاؤں سے حوصلہ آم کے پیڑ سے بور بچوں کی مٹھی سے لوری اور فصلوں پہ
پھیلی ہوئی دھوپ کٹ کر گرے
تو اسے مت اٹھانا
نگاہ اپنے دشمن پہ رکھنا
سفر کو امانت سمجھنا
اور اعصاب جھکنے نہ دینا
کہ سب چیزیں اپنے سے بہتر کو اپنی جگہ دے گئی ہیں
رات کی گاڑی کا ایک پہیہ نکل گیا
میرا بیٹا اس پہیے سے کھیلتا ہے
گاڑی کو لینے کوئی نہیں آیا
اس دن سے میرے گھر میں
اخبار نہیں آیا
دودھ نہیں آیا
پرندہ نہیں آیا
اس دن کے بعد
میں نے اپنی نظم میں کوئی شکار نہیں کھیلا
میں اپنی نظم کے اندر خاموش ہو گیا
اور میری نظم آہستہ آہستہ میرے لیے پنجرہ بن گئی
رات کی گاڑی کو لینے کوئی نہیں آیا
انہوں نے جان بوجھ کے ایسا کیا ہے
وہ میرے دل میں بچی کھچی چیزوں کو شکار کرنا چاہتے ہیں
شاید وہ نقشہ چرانا چاہتے ہیں
کچھ لوگ رات کی گاڑی سے نیچے اترے
میرے اناج کے کمرے اور میری نظموں کی تلاشی لی
اپنی حفاظت کے لیے
کچھ ہتھیار میں نے ان نظموں میں چھپا رکھے تھے
اب میرے پاس چند ڈرے ہوئے لفظوں اور چھان بورے کے سوا کچھ نہیں
انہوں نے میرے بیٹے کی کتابیں چھین لیں
اور اپنی لکھی ہوئی کتابیں دے دیں
اور کہا ہم تمہارے ہی گھر میں
تمہاری نظموں کے لیے ایک مخبر تیار کرنا چاہتے ہیں
رات کی گاڑی کا پہیہ مجھے اپنے سینے میں اترتا ہوا محسوس ہوا
میرے گھر کی ہر شے پہیے میں بدل گئی
حتی کہ میری باتیں بھی پہیہ بن گئیں
اور پھر یہ پہیہ میری تاریخ بن جائے گا
اس تاریخ سے بہت سارے بچے پیدا ہوں گے
وہ رات کی اس گاڑی کو کھینچیں گے
لیکن اس وقت تک رات
اپنی جڑیں چھوڑ چکی ہوگی
کسی کے دل میں اپنے نام کی شمع جلانے میں
کسی کے شہر کو دریافت کرنے میں
کسی انمول ساعت میں کسی ناراض ساتھی کو ذرا سا پاس لانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
درد کا پرچم بنانے میں
پرانے زخم پہ مرہم لگانے میں
محبت کی کویتا کو ہوا کے رخ پہ لانے میں
پرانی نفرتوں کو بھول جانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
رات کی دیوار میں اک در بنانے میں
مقدر میں لگی اک گانٹھ کو آزاد کرنے میں
نئے کچھ مرحلے تسخیر کرنے میں
مرے غالبؔ، مرے ٹیگورؔ کو اپنا بنانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
دشت میں پھولوں کا گلدستہ سجانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
مگر یہ دن زیادہ تو نہیں ہوں گے
بس اک موسم کی دوری پر
کہیں ہم تم ملیں گے
بس اک ساعت کی نزدیکی میں
باہم مشورے ہوں گے
بس اک گزرے ہوئے کل سے پرے
ہم پاس بیٹھیں گے
بہت سا درس سہہ لیں گے
بہت سی بات کر لیں گے
اور اس میں بھیڑیا رہتا ہے
جو رات کو میری آنکھوں میں آ جاتا ہے
اور سارے منظر کھا جاتا ہے
صبح کو سورج اپنے پیالے سے شبنم ٹپکاتا ہے
اور دن کا بچہ
میری روح کے جھولے میں رکھ جاتا ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں فاختہ رہتی ہے
جو اپنے پروں سے میرے لئے
اک پرچم بنتی رہتی ہے
اور خوشبو سے اک نغمہ لکھتی رہتی ہے
پھر تھک کر میرے بالوں میں سو جاتی ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں جوگی رہتا ہے
جو میرے خون سے اپنی شراب بناتا ہے
اور اپنے ستار میں چھپی ہوئی لڑکی کو
پاس بلاتا ہے
پھر جنگل بوسہ بن جاتا ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں بھولا بھٹکا زخمی شہزادہ ہے
جس کا لشکر
خون کی دھار پہ اس کے پیچھے آتا ہے
وہ اپنے وطن کے نقشے کو زخموں پہ باندھ کے
آخری خطبہ دیتا ہے
پھر مر جاتا ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں گہری خاموشی ہے
وہ ہنستے ہیں
اور آسمان کی بجلی ان کے دانتوں میں پھنس جاتی ہے
جب تیس دنوں کی سیڑھی سے ہر ماہ میں نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میرے بدن کی مٹی ہے
جب کچی سیاہی اور قینچی سے لکھے ہوئے اخبار سے نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میرے نام کی کلغی ہے
جب ہوا اور دھوپ کے ہاتھ سے چھوٹ کے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میرے دل کی پتیاں ہیں
جب محبوبہ کے دھیان سے نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میری آنکھ کا پانی ہے
جب میں کتاب کے سچ اور دن کے جھوٹ سے نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میری عمر کے صفحے ہیں
میں گرتا ہوں
اور ان کو یہ معلوم نہیں
میں بالکل ایسے گرتا ہوں کہ
جیسے پکے ہوئے پھل میں سے بیج کا دانہ گرتا ہے
میں اپنی زمین پہ بالکل ایسے گرتا ہوں
Ankar Bhi Azhar Hi Ka Chahra Hai
Jo Zaton Ka Batwarah Kera
Ya Akhari Mehra Hai Jo Paspa Kera Alfaz
Mera Our Tera Darmiyan Bola Gai
Ankar Ak Sehra Hai Jo Har Gum Shuda Ka Ghont Behr Leta Hai
Or Phir Dhop Ma Hansta Hai Pagal Ki Hansi
Awaz Ma Basot Hai
Ankar Meri Mout Hai
Tahraou Bhi To Akhari Hichki Ma Hain Wade Milan Ke Saton Ka
Sham Ki Khusbo Bhi To A Rahi Hai Dobti Nao Sa Or Tote Howe Patwar Se
Tahrao Mera Alfaz Apne Alwadai Saans Ma Kuch Kah Rahe Hain
Tera Mera Dermiyan Ankar Ka Pahlao Hai
Our Khamoshi Ki Gounj Hai
Otre Howe Darya Hamari Wepsi Ka Muntazir Hain
In Ka Is Janaib Masafat Khof Ka Pahlao Hai






