Abhi To Kerna Pare Ga Safer Dobara Mujhe
Poet: Zafar Iqbal By: Umer Khan, KarachiAbhi To Kerna Pare Ga Safer Dobara Mujhe
Abhi Kare Nahin Aram Ka Ishara Mujhe
Lahu Me Ayega Tufaan-E-Tund Raat-Ba-Raat
Karegi Mauj-E-Balaa-Khaizz Paara-Paara Mujhe
Bujha Nahin Mere Andar Ka Aaftaab Abhi
Jalaa Ke Khaak Kare Ga Yahi Sharaara Mujhe
Utaaar Phenktaa Main Bhi Yeh Taar-Taar Badan
Aseer-E-Khaak Hoon Karna Parra Guzaara Mujhe
Urre Woh Gard Ke Main Chaar-Suu Bikhar Jaaun
Ghubaar Me Nazar Aaye Na Koi Chaara Mujhe
Meri Hudood Me Hai Mere Aas Paas Ki Dhund
Rahaa Yeh Sheher To Is Ka Nahin Ijaara Mujhe
Seher Huyi To Bohat Dair Tak Dikhaayi Diyaa
Ghuroob Hotii Huyi Raat Ka Kinaara Mujhe
Meri Fazaa Me Hai Tarteeb Kaainaat Kuch Aur
Ajab Nahin Jo Tera Chaand Hai Sitaara Mujhe
Na Chhuu Sakun Jise Kya Us Ka Dekhna Bhi “Zafar”
Bhalaa Laga Na Kabhi Duur Ka Nazaara Mujhe
یہ تماشا اب سر بازار ہونا چاہئے
خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی
پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہئے
ڈوب کر مرنا بھی اسلوب محبت ہو تو ہو
وہ جو دریا ہے تو اس کو پار ہونا چاہئے
اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے
بات پوری ہے ادھوری چاہئے اے جان جاں
کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہئے
دوستی کے نام پر کیجے نہ کیونکر دشمنی
کچھ نہ کچھ آخر طریق کار ہونا چاہئے
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے
شہر کو ہر ذائقے سے آشنا کر جاؤں گا
تو بھی ڈھونڈے گا مجھے شوق سزا میں ایک دن
میں بھی کوئی خوبصورت سی خطا کر جاؤں گا
مجھ سے اچھائی بھی نہ کر میری مرضی کے خلاف
ورنہ میں بھی ہاتھ کوئی دوسرا کر جاؤں گا
مجھ میں ہیں گہری اداسی کے جراثیم اس قدر
میں تجھے بھی اس مرض میں مبتلا کر جاؤں گا
شور ہے اس گھر کے آنگن میں ظفرؔ کچھ روز اور
گنبد دل کو کسی دن بے صدا کر جاؤں گا
وہ محبت جسے برباد بھی خود میں نے کیا
نوچ کر پھینک دیے آپ ہی خواب آنکھوں سے
اس دبی شاد کو ناشاد بھی خود میں نے کیا
جال پھیلائے تھے جس کے لیے چاروں جانب
اس گرفتار کو آزاد بھی خود میں نے کیا
کام تیرا تھا مگر مارے مروت کے اسے
تجھ سے پہلے بھی ترے بعد بھی خود میں نے کیا
شہر میں کیوں مری پہچان ہی باقی نہ رہی
اس خرابے کو تو آباد بھی خود میں نے کیا
ہر نیا ذائقہ چھوڑا ہے جو اوروں کے لیے
پہلے اپنے لیے ایجاد بھی خود میں نے کیا
انکساری میں مرا حکم بھی جاری تھا ظفرؔ
عرض کرتے ہوئے ارشاد بھی خود میں نے کیا
پہلی ہی بار دوسری بار انتظار تھا
خاموشیٔ خزاں تھی چمن در چمن تمام
شاخ و شجر میں شور بہار انتظار تھا
دیکھا تو خلوت خس و خاشاک خواب میں
روشن کوئی چراغ شرار انتظار تھا
باہر بھی گرد امید کی اڑتی تھی دور دور
اندر بھی چاروں سمت غبار انتظار تھا
پھیلے ہوئے وہ گھاس کے تختے نہ تھے وہاں
دراصل ایک سلسلہ وار انتظار تھا
کوئی خبر تھی آمد و امکان صبح کی
اور اس کے ارد گرد حصار انتظار تھا
کس کے گمان میں تھے نئے موسموں کے رنگ
کس کا مرے سوا سروکار انتظار تھا
امڈا ہوا ہجوم تماشا تھا دائیں بائیں
تنہا تھیں آنکھیں اور ہزار انتظار تھا
چکر تھے پاؤں میں کوئی شام و سحر ظفرؔ
اوپر سے میرے سر پہ سوار انتظار تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا
گلی میں لوگ بھی تھے میرے اس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا
اس ایک دشت میں سو شہر ہو گئے آباد
جہاں کسی نے کبھی کارواں لٹایا تھا
وہ مجھ سے اپنا پتا پوچھنے کو آ نکلے
کہ جن سے میں نے خود اپنا سراغ پایا تھا
مرے وجود سے گلزار ہو کے نکلی ہے
وہ آگ جس نے ترا پیرہن جلایا تھا
مجھی کو طعنۂ غارت گری نہ دے پیارے
یہ نقش میں نے ترے ہاتھ سے مٹایا تھا
اسی نے روپ بدل کر جگا دیا آخر
جو زہر مجھ پہ کبھی نیند بن کے چھایا تھا
ظفرؔ کی خاک میں ہے کس کی حسرت تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا






