اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی
Poet: Iqbal Naveed By: beenish, khi
اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی
مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی
خدا جانے گریباں کس کے ہیں اور ہاتھ کس کے ہیں
اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی
مری خواہش ہے دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے آؤں
بلندی کی طرف لیکن کبھی پستی نہیں جاتی
خیالوں میں ہمیشہ اس غزل کو گنگناتا ہوں
کہ جو کاغذ کے چہرے پر کبھی لکھی نہیں جاتی
وہی رستے وہی رونق وہی ہیں عام سے چہرے
نویدؔ آنکھوں کی لیکن پھر بھی حیرانی نہیں جاتی
More Iqbal Naveed Poetry
یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ یہ زمیں ہم کو ملی بہتے ہوئے پانی کے ساتھ
اک سمندر پار کرنا ہے اسی کشتی کے ساتھ
عمر یونہی تو نہیں کٹتی بگولوں کی طرح
خاک اڑنے کے لیے مجبور ہے آندھی کے ساتھ
جانے کس امید پر ہوں آبیاری میں مگن
ایک پتہ بھی نہیں سوکھی ہوئی ٹہنی کے ساتھ
میں ابھی تک رزق چننے میں یہاں مصروف ہوں
لوٹ جاتے ہیں پرندے شام کی سرخی کے ساتھ
پھینک دے باہر کی جانب اپنے اندر کی گھٹن
اپنی آنکھوں کو لگا دے گھر کی ہر کھڑکی کے ساتھ
جان جا سکتی ہے خوشبو کے تعاقب میں نویدؔ
سانپ بھی ہوتا ہے اکثر رات کی رانی کے ساتھ
اک سمندر پار کرنا ہے اسی کشتی کے ساتھ
عمر یونہی تو نہیں کٹتی بگولوں کی طرح
خاک اڑنے کے لیے مجبور ہے آندھی کے ساتھ
جانے کس امید پر ہوں آبیاری میں مگن
ایک پتہ بھی نہیں سوکھی ہوئی ٹہنی کے ساتھ
میں ابھی تک رزق چننے میں یہاں مصروف ہوں
لوٹ جاتے ہیں پرندے شام کی سرخی کے ساتھ
پھینک دے باہر کی جانب اپنے اندر کی گھٹن
اپنی آنکھوں کو لگا دے گھر کی ہر کھڑکی کے ساتھ
جان جا سکتی ہے خوشبو کے تعاقب میں نویدؔ
سانپ بھی ہوتا ہے اکثر رات کی رانی کے ساتھ
zaheer
اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی
مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی
خدا جانے گریباں کس کے ہیں اور ہاتھ کس کے ہیں
اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی
مری خواہش ہے دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے آؤں
بلندی کی طرف لیکن کبھی پستی نہیں جاتی
خیالوں میں ہمیشہ اس غزل کو گنگناتا ہوں
کہ جو کاغذ کے چہرے پر کبھی لکھی نہیں جاتی
وہی رستے وہی رونق وہی ہیں عام سے چہرے
نویدؔ آنکھوں کی لیکن پھر بھی حیرانی نہیں جاتی
مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی
خدا جانے گریباں کس کے ہیں اور ہاتھ کس کے ہیں
اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی
مری خواہش ہے دنیا کو بھی اپنے ساتھ لے آؤں
بلندی کی طرف لیکن کبھی پستی نہیں جاتی
خیالوں میں ہمیشہ اس غزل کو گنگناتا ہوں
کہ جو کاغذ کے چہرے پر کبھی لکھی نہیں جاتی
وہی رستے وہی رونق وہی ہیں عام سے چہرے
نویدؔ آنکھوں کی لیکن پھر بھی حیرانی نہیں جاتی
beenish






