Ai Khamoshi
Poet: Asghar Nadeem Syed By: Mohsin, khiMere Khun Men Chhup Ke Baith
Kafan Ho Jaise Rangat Se Mahrum
Tujh Men Bhi Kuchh Aisi Be-Lafzi Ka Mausam Phaile
Tariki Ke Imkan Se Ubhar
Tu Bhi Dam Tode Meri Aankhon Men
Is Khun Men Dariya Roenge
Dulhan Ban Ke Mere Chehre Par Sharma
Ai Khamoshi!
Jo Sanson Men Phunkarte Hain
Aaj Ki Shab
Un Sanpon Men
Ai Khamoshi!
Ai Khamoshi! Taron Se Utar
Aur Bachche Shor Machaenge
More Asghar Nadeem Syed Poetry
کبھی منہ سے آواز ہاتھوں سے قسمت اور آنکھوں سے پہلی مسرت کا پانی گرے کبھی منہ سے آواز ہاتھوں سے قسمت اور آنکھوں سے پہلی مسرت کا پانی گرے
تو اسے مت اٹھانا
کبھی رات کی شال سے چاند سالوں کی مٹھی سے خوشبو زمینوں کی جھولی سے خوراک
اور دل سے قربت کی خواہش گرے
تو اسے اٹھانا
کبھی شام کے گھونسلے سے پرندہ فجر سے عبادت کا چوغا پہاڑوں سے
سرما کا پہلا مینہ گرے
تو اسے مت اٹھانا
کبھی آسمانوں سے حرف مناجات شاہین کی آنکھوں سے آنسو ہواؤں
سے لمبے سفر کی حکایت
غلاموں کے دامن سے آزاد صبحوں کی ساعت گرے
تو اسے مت اٹھانا
کبھی پاؤں سے حوصلہ آم کے پیڑ سے بور بچوں کی مٹھی سے لوری اور فصلوں پہ
پھیلی ہوئی دھوپ کٹ کر گرے
تو اسے مت اٹھانا
نگاہ اپنے دشمن پہ رکھنا
سفر کو امانت سمجھنا
اور اعصاب جھکنے نہ دینا
کہ سب چیزیں اپنے سے بہتر کو اپنی جگہ دے گئی ہیں
تو اسے مت اٹھانا
کبھی رات کی شال سے چاند سالوں کی مٹھی سے خوشبو زمینوں کی جھولی سے خوراک
اور دل سے قربت کی خواہش گرے
تو اسے اٹھانا
کبھی شام کے گھونسلے سے پرندہ فجر سے عبادت کا چوغا پہاڑوں سے
سرما کا پہلا مینہ گرے
تو اسے مت اٹھانا
کبھی آسمانوں سے حرف مناجات شاہین کی آنکھوں سے آنسو ہواؤں
سے لمبے سفر کی حکایت
غلاموں کے دامن سے آزاد صبحوں کی ساعت گرے
تو اسے مت اٹھانا
کبھی پاؤں سے حوصلہ آم کے پیڑ سے بور بچوں کی مٹھی سے لوری اور فصلوں پہ
پھیلی ہوئی دھوپ کٹ کر گرے
تو اسے مت اٹھانا
نگاہ اپنے دشمن پہ رکھنا
سفر کو امانت سمجھنا
اور اعصاب جھکنے نہ دینا
کہ سب چیزیں اپنے سے بہتر کو اپنی جگہ دے گئی ہیں
Naeem
میرے گھر کے سامنے میرے گھر کے سامنے
رات کی گاڑی کا ایک پہیہ نکل گیا
میرا بیٹا اس پہیے سے کھیلتا ہے
گاڑی کو لینے کوئی نہیں آیا
اس دن سے میرے گھر میں
اخبار نہیں آیا
دودھ نہیں آیا
پرندہ نہیں آیا
اس دن کے بعد
میں نے اپنی نظم میں کوئی شکار نہیں کھیلا
میں اپنی نظم کے اندر خاموش ہو گیا
اور میری نظم آہستہ آہستہ میرے لیے پنجرہ بن گئی
رات کی گاڑی کو لینے کوئی نہیں آیا
انہوں نے جان بوجھ کے ایسا کیا ہے
وہ میرے دل میں بچی کھچی چیزوں کو شکار کرنا چاہتے ہیں
شاید وہ نقشہ چرانا چاہتے ہیں
کچھ لوگ رات کی گاڑی سے نیچے اترے
میرے اناج کے کمرے اور میری نظموں کی تلاشی لی
اپنی حفاظت کے لیے
کچھ ہتھیار میں نے ان نظموں میں چھپا رکھے تھے
اب میرے پاس چند ڈرے ہوئے لفظوں اور چھان بورے کے سوا کچھ نہیں
انہوں نے میرے بیٹے کی کتابیں چھین لیں
اور اپنی لکھی ہوئی کتابیں دے دیں
اور کہا ہم تمہارے ہی گھر میں
تمہاری نظموں کے لیے ایک مخبر تیار کرنا چاہتے ہیں
رات کی گاڑی کا پہیہ مجھے اپنے سینے میں اترتا ہوا محسوس ہوا
میرے گھر کی ہر شے پہیے میں بدل گئی
حتی کہ میری باتیں بھی پہیہ بن گئیں
اور پھر یہ پہیہ میری تاریخ بن جائے گا
اس تاریخ سے بہت سارے بچے پیدا ہوں گے
وہ رات کی اس گاڑی کو کھینچیں گے
لیکن اس وقت تک رات
اپنی جڑیں چھوڑ چکی ہوگی
رات کی گاڑی کا ایک پہیہ نکل گیا
میرا بیٹا اس پہیے سے کھیلتا ہے
گاڑی کو لینے کوئی نہیں آیا
اس دن سے میرے گھر میں
اخبار نہیں آیا
دودھ نہیں آیا
پرندہ نہیں آیا
اس دن کے بعد
میں نے اپنی نظم میں کوئی شکار نہیں کھیلا
میں اپنی نظم کے اندر خاموش ہو گیا
اور میری نظم آہستہ آہستہ میرے لیے پنجرہ بن گئی
رات کی گاڑی کو لینے کوئی نہیں آیا
انہوں نے جان بوجھ کے ایسا کیا ہے
وہ میرے دل میں بچی کھچی چیزوں کو شکار کرنا چاہتے ہیں
شاید وہ نقشہ چرانا چاہتے ہیں
کچھ لوگ رات کی گاڑی سے نیچے اترے
میرے اناج کے کمرے اور میری نظموں کی تلاشی لی
اپنی حفاظت کے لیے
کچھ ہتھیار میں نے ان نظموں میں چھپا رکھے تھے
اب میرے پاس چند ڈرے ہوئے لفظوں اور چھان بورے کے سوا کچھ نہیں
انہوں نے میرے بیٹے کی کتابیں چھین لیں
اور اپنی لکھی ہوئی کتابیں دے دیں
اور کہا ہم تمہارے ہی گھر میں
تمہاری نظموں کے لیے ایک مخبر تیار کرنا چاہتے ہیں
رات کی گاڑی کا پہیہ مجھے اپنے سینے میں اترتا ہوا محسوس ہوا
میرے گھر کی ہر شے پہیے میں بدل گئی
حتی کہ میری باتیں بھی پہیہ بن گئیں
اور پھر یہ پہیہ میری تاریخ بن جائے گا
اس تاریخ سے بہت سارے بچے پیدا ہوں گے
وہ رات کی اس گاڑی کو کھینچیں گے
لیکن اس وقت تک رات
اپنی جڑیں چھوڑ چکی ہوگی
Obaid
ابھی کچھ دن لگیں گے خواب کو تعبیر ہونے میں ابھی کچھ دن لگیں گے خواب کو تعبیر ہونے میں
کسی کے دل میں اپنے نام کی شمع جلانے میں
کسی کے شہر کو دریافت کرنے میں
کسی انمول ساعت میں کسی ناراض ساتھی کو ذرا سا پاس لانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
درد کا پرچم بنانے میں
پرانے زخم پہ مرہم لگانے میں
محبت کی کویتا کو ہوا کے رخ پہ لانے میں
پرانی نفرتوں کو بھول جانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
رات کی دیوار میں اک در بنانے میں
مقدر میں لگی اک گانٹھ کو آزاد کرنے میں
نئے کچھ مرحلے تسخیر کرنے میں
مرے غالبؔ، مرے ٹیگورؔ کو اپنا بنانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
دشت میں پھولوں کا گلدستہ سجانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
مگر یہ دن زیادہ تو نہیں ہوں گے
بس اک موسم کی دوری پر
کہیں ہم تم ملیں گے
بس اک ساعت کی نزدیکی میں
باہم مشورے ہوں گے
بس اک گزرے ہوئے کل سے پرے
ہم پاس بیٹھیں گے
بہت سا درس سہہ لیں گے
بہت سی بات کر لیں گے
کسی کے دل میں اپنے نام کی شمع جلانے میں
کسی کے شہر کو دریافت کرنے میں
کسی انمول ساعت میں کسی ناراض ساتھی کو ذرا سا پاس لانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
درد کا پرچم بنانے میں
پرانے زخم پہ مرہم لگانے میں
محبت کی کویتا کو ہوا کے رخ پہ لانے میں
پرانی نفرتوں کو بھول جانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
رات کی دیوار میں اک در بنانے میں
مقدر میں لگی اک گانٹھ کو آزاد کرنے میں
نئے کچھ مرحلے تسخیر کرنے میں
مرے غالبؔ، مرے ٹیگورؔ کو اپنا بنانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
دشت میں پھولوں کا گلدستہ سجانے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
مگر یہ دن زیادہ تو نہیں ہوں گے
بس اک موسم کی دوری پر
کہیں ہم تم ملیں گے
بس اک ساعت کی نزدیکی میں
باہم مشورے ہوں گے
بس اک گزرے ہوئے کل سے پرے
ہم پاس بیٹھیں گے
بہت سا درس سہہ لیں گے
بہت سی بات کر لیں گے
parveen
میرے دل میں جنگل ہے میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں بھیڑیا رہتا ہے
جو رات کو میری آنکھوں میں آ جاتا ہے
اور سارے منظر کھا جاتا ہے
صبح کو سورج اپنے پیالے سے شبنم ٹپکاتا ہے
اور دن کا بچہ
میری روح کے جھولے میں رکھ جاتا ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں فاختہ رہتی ہے
جو اپنے پروں سے میرے لئے
اک پرچم بنتی رہتی ہے
اور خوشبو سے اک نغمہ لکھتی رہتی ہے
پھر تھک کر میرے بالوں میں سو جاتی ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں جوگی رہتا ہے
جو میرے خون سے اپنی شراب بناتا ہے
اور اپنے ستار میں چھپی ہوئی لڑکی کو
پاس بلاتا ہے
پھر جنگل بوسہ بن جاتا ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں بھولا بھٹکا زخمی شہزادہ ہے
جس کا لشکر
خون کی دھار پہ اس کے پیچھے آتا ہے
وہ اپنے وطن کے نقشے کو زخموں پہ باندھ کے
آخری خطبہ دیتا ہے
پھر مر جاتا ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں گہری خاموشی ہے
اور اس میں بھیڑیا رہتا ہے
جو رات کو میری آنکھوں میں آ جاتا ہے
اور سارے منظر کھا جاتا ہے
صبح کو سورج اپنے پیالے سے شبنم ٹپکاتا ہے
اور دن کا بچہ
میری روح کے جھولے میں رکھ جاتا ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں فاختہ رہتی ہے
جو اپنے پروں سے میرے لئے
اک پرچم بنتی رہتی ہے
اور خوشبو سے اک نغمہ لکھتی رہتی ہے
پھر تھک کر میرے بالوں میں سو جاتی ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں جوگی رہتا ہے
جو میرے خون سے اپنی شراب بناتا ہے
اور اپنے ستار میں چھپی ہوئی لڑکی کو
پاس بلاتا ہے
پھر جنگل بوسہ بن جاتا ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں بھولا بھٹکا زخمی شہزادہ ہے
جس کا لشکر
خون کی دھار پہ اس کے پیچھے آتا ہے
وہ اپنے وطن کے نقشے کو زخموں پہ باندھ کے
آخری خطبہ دیتا ہے
پھر مر جاتا ہے
میرے دل میں جنگل ہے
اور اس میں گہری خاموشی ہے
Ehtisham
جب میں خوابوں کی سطح سے گرتا ہوں جب میں خوابوں کی سطح سے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور آسمان کی بجلی ان کے دانتوں میں پھنس جاتی ہے
جب تیس دنوں کی سیڑھی سے ہر ماہ میں نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میرے بدن کی مٹی ہے
جب کچی سیاہی اور قینچی سے لکھے ہوئے اخبار سے نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میرے نام کی کلغی ہے
جب ہوا اور دھوپ کے ہاتھ سے چھوٹ کے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میرے دل کی پتیاں ہیں
جب محبوبہ کے دھیان سے نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میری آنکھ کا پانی ہے
جب میں کتاب کے سچ اور دن کے جھوٹ سے نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میری عمر کے صفحے ہیں
میں گرتا ہوں
اور ان کو یہ معلوم نہیں
میں بالکل ایسے گرتا ہوں کہ
جیسے پکے ہوئے پھل میں سے بیج کا دانہ گرتا ہے
میں اپنی زمین پہ بالکل ایسے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور آسمان کی بجلی ان کے دانتوں میں پھنس جاتی ہے
جب تیس دنوں کی سیڑھی سے ہر ماہ میں نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میرے بدن کی مٹی ہے
جب کچی سیاہی اور قینچی سے لکھے ہوئے اخبار سے نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میرے نام کی کلغی ہے
جب ہوا اور دھوپ کے ہاتھ سے چھوٹ کے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میرے دل کی پتیاں ہیں
جب محبوبہ کے دھیان سے نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میری آنکھ کا پانی ہے
جب میں کتاب کے سچ اور دن کے جھوٹ سے نیچے گرتا ہوں
وہ ہنستے ہیں
اور ان کے ہاتھ میں میری عمر کے صفحے ہیں
میں گرتا ہوں
اور ان کو یہ معلوم نہیں
میں بالکل ایسے گرتا ہوں کہ
جیسے پکے ہوئے پھل میں سے بیج کا دانہ گرتا ہے
میں اپنی زمین پہ بالکل ایسے گرتا ہوں
shabeer
Adhori Larki Ka Liya Ak Nazam Tera Mera Darmiyan Ankar Ka Pahlao Hai
Ankar Bhi Azhar Hi Ka Chahra Hai
Jo Zaton Ka Batwarah Kera
Ya Akhari Mehra Hai Jo Paspa Kera Alfaz
Mera Our Tera Darmiyan Bola Gai
Ankar Ak Sehra Hai Jo Har Gum Shuda Ka Ghont Behr Leta Hai
Or Phir Dhop Ma Hansta Hai Pagal Ki Hansi
Awaz Ma Basot Hai
Ankar Meri Mout Hai
Tahraou Bhi To Akhari Hichki Ma Hain Wade Milan Ke Saton Ka
Sham Ki Khusbo Bhi To A Rahi Hai Dobti Nao Sa Or Tote Howe Patwar Se
Tahrao Mera Alfaz Apne Alwadai Saans Ma Kuch Kah Rahe Hain
Tera Mera Dermiyan Ankar Ka Pahlao Hai
Our Khamoshi Ki Gounj Hai
Otre Howe Darya Hamari Wepsi Ka Muntazir Hain
In Ka Is Janaib Masafat Khof Ka Pahlao Hai
Ankar Bhi Azhar Hi Ka Chahra Hai
Jo Zaton Ka Batwarah Kera
Ya Akhari Mehra Hai Jo Paspa Kera Alfaz
Mera Our Tera Darmiyan Bola Gai
Ankar Ak Sehra Hai Jo Har Gum Shuda Ka Ghont Behr Leta Hai
Or Phir Dhop Ma Hansta Hai Pagal Ki Hansi
Awaz Ma Basot Hai
Ankar Meri Mout Hai
Tahraou Bhi To Akhari Hichki Ma Hain Wade Milan Ke Saton Ka
Sham Ki Khusbo Bhi To A Rahi Hai Dobti Nao Sa Or Tote Howe Patwar Se
Tahrao Mera Alfaz Apne Alwadai Saans Ma Kuch Kah Rahe Hain
Tera Mera Dermiyan Ankar Ka Pahlao Hai
Our Khamoshi Ki Gounj Hai
Otre Howe Darya Hamari Wepsi Ka Muntazir Hain
In Ka Is Janaib Masafat Khof Ka Pahlao Hai
Nadeem






