✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
امجد خان
Search
Add Poetry
Poetries by امجد خان
شکوہ
راہ اقبال پر چلنے کی تمنا کر کے
دل بھی رنجیدہ ہےالٰلّه سے شکوہ کر کے
اصفیا سمجھیں گے ہر بات کہ صوفی میں ہوں
کیا زمانے کو ملے گا مجھے رسوا کر کے
انجم لکھنویؔ
شِکَوہٗ
تیری رحمت کو نہ کیوں دیدہ پر نم ڈھونڈھے
ہے جسے تیری ضرورت وہی پیہم ڈھونڈھے
پھول کو گلشن ہستی میں بھی شبنم ڈھونڈ ھے
! خلد آدم کو کبھی خلد کو آدم ڈھونڈ ھے
شکوۂ عبد بھی سن کر تیرا پردہ نہ اُٹھا
تیری مرضی تو مجھے جلوہ دکھا یا نہ دکھا
طالب مدح تھا اب طالب شکوہ میں ہوں
جو ہے دریا کا طلبگار وہ قطرہ میں ہوں
تو ہے معبود مرا اور ترا بندہ میں ہوں
مالک حسن ہے تو عشق کا جلوہ میں ہوں
اپنے عاشق کو محبت کی سزا کس نے دی
بر سر دار انا الحق کی صدا کس نے دی
مشت بھر خاک سے اور ہستی آدم کا وجود
میں نے مانا یہ تری کارا گری ہے معبود
اور فرشتے پس آدم بھی ہوئے سر بہ سجود
ہیں اُسی نسل سے کیونکر یہ مسلمانو ہنود
کچھ نصیری ہیں نصارا بھی ہیں عیسائی بھی
جز مرے کرتے ہیں کیا تیری پذیرائی بھی
تیرے کلمے کا بھی اعلان کیا ہے ہم نے
کتنی قوموں کو مسلمان کیا ہے ہم نے
قریہ قریہ تجھے ذیشان کیا ہے ہم نے
مرحلہ سخت تھا آسان کیا ہے ہم نے
ہم اگر حق پر ہیں تو عرش سے آواز تو دے
یا بلالے ہمیں اور قوت پرواز تو دے
نام مسجد ہے ترا گھر جو بنا رکھا ہے
فرش عصمت کو بھی سجدوں سے سجا رکھا ہے
یاد میں نے بھی تجھے وقت دعا رکھا ہے
پر دُعاؤں میں اثر تو نے بھی کیا رکھا ہے
جینے والے کو دعا دیتا ہوں مر جاتا ہے
میرے ایمان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے
میں ترے نام کی تسبیح پڑھا کرتا ہوں
سجده شکر بصد شوق ادا کرتا ہوں
میں بہر حال تجھے راضی رضا کرتا ہوں
بخش دے میری خطائیں یہ دُعا کرتا ہوں
تو اگر ہے تو عمل کی مرے تائید بھی کر
جاری میرے لئے تو چشمہ تو حید بھی کر
لامکاں تو ہے حرم اصل تیرا گھر بھی نہیں
وہ کلیسا بھی نہیں مسجد و مندر بھی نہیں
تیرے رہنے کی جگہ یہ دل مضطر بھی نہیں
نور جب تو ہے ترا پھر کوئی ہمسر بھی نہیں
چاند سمجھوں تجھے سورج یا ستارہ سمجھوں
کوئی پہچان بتا کچھ تو اشارہ سمجھوں!
حق تجھے مان لیا خود ر ہے عابد بن کر
بندگی کی ہے تری واقعی زاہد بن کر
دعوتیں بانٹیں ترے دین کا قاصد بن کر
جو مخالف ہوا لڑ بیٹھے مجاہد بن کر
ہر جگہ پرچم توحید کو گاڑا کس نے
باب خیبر کو دو انگلی سے اُکھاڑا کس نے
نام زندہ ر ہے تیرا کہ اُٹھائی افتاد
جب سنائی تو سنائی تجھے اپنی روداد
تیغ باطل سے نہتھا لڑا بن کر فولاد
مڑ کے دیکھا نہ کبھی گھر کی طرف وقت جہاد
فوج اعدا نہ رہی جنگ کے منظر بدلے
میری ٹھوکر سے ہی پتھر کے مقدر بد لے
میں نے کردار زمانے کا پلٹتے دیکھا
تیرا پھیلا ہوا اسلام سمٹتے دیکھا
تو نے کب جنگ میں پیچھے مجھے ہٹتے دیکھا
کٹ گیا میرا گلا تو نے بھی کٹتے دیکھا
آسماں میری دعاؤں سے کہیں دُور نہ تھا
رن میں مجبور تھا میں تو کوئی مجبور نہ تھا
تیرا ادنی سا کرشمہ ہیں سبھی شجر و حجر
تو نے پیدا کئے دریاؤں میں بھی لعل و گہر
اتنی فرصت بھی نہ دی دیکھتا سارے منظر
مجھکو دوڑاتا رہا ہاتھ میں پرچم دیگر
تیرے اسلام کی تبلیغ مرے دم سے ہوئی
تیری دنیا کی شروعات بھی آدم سے ہوئی
لات و عزہ و ہبل کا تو بڑا لشکر تھا
غاصبانہ جہاں قبضہ تھا وہ تیرا گھر تھا
جب خدائی تھی تری تب بھی خدا پتھر تھا
گویا تخلیق بتا ں کیلئے اک آزر تھا
ہم نے طوفان نحوست کی روش موڑی ہے
یعنی پتھر کے خداؤں کی کمر توڑی ہے
تیرا محبوب نہ ہوتا تو ترا کیا ہوتا
بندگی کا تری ہر موڑ پہ سودا ہوتا
تجھکو سجدہ نہیں پھر غیر کا سجدہ ہوتا
کیسا لگتا تجھے میں کہتا جو اچھا ہوتا
سن کے یہ بات میری تجھکو جلال آجاتا
تجھکو محبوب کا اُس وقت خیال آجاتا
فاقہ کرتے ہیں مسلمان شکم سیر ہنود
شکر کرتے ہیں ادا، پھر بھی ترا سر بہ سجود
کیوں نہیں دیکھتا جب ہر جگہ تو ہے موجود
تجھکو پرواہ نہیں ہے میری شاید معبود
تو ہے رزاق تو ہی سبکو غذا دیتا ہے
پھر مجھے کس لئے تو بھوکا سلا دیتا ہے
ذہن قاصر ہے کہ میں کیسے گنہگار ہوا
تیری رحمت کا بحر کیف طلبگار ہوا
پھر بھی تیرا نہ کسی موڑ پہ دیدار ہوا
میں تولد ہوا دنیا میں یہ بیکار ہوا
تو ہے معبود تو بندے سے جدائی کیسی
جو میرے کام نہ آئے وہ خدائی کیسی
کیا ستم ہے ترا پہلے مجھے جنت دیدی
میں نے مانگی نہ تھی خود اپنی خلافت دیدی
اپنی من مانی جو چاہی وہ وصیت دیدی
اور پھر خلد بدر ہو یہ اجازت دیدی
مجھکو دنیا میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا
تو نے اک مٹی کے انسان کا دل توڑ دیا
جب مٹانا ہی تھا کیوں مجھکو بنایا تو نے
کیوں فرشتوں سے مرا سجدہ کرایا تو نے
کیوں بلندی پہ بیٹھا کر یوں گرایا تو نے
کیسا احسان ترا جو کہ جتایا تو نے
اے خدا تو ہی بتا کیا یہ تری مرضی ہے
یہ جو مرضی ہے تری اس میں بھی خود غرضی ہے
تیری دھرتی ہے مگر صورت دہقاں ہم ہیں
ایک اک دانہ گندم کے نگہباں ہم ہیں
زینت غنچۂ گل بھی ہیں گلستاں ہم ہیں
تیری دنیا کی سجاوٹ کے بھی ساماں ہم ہیں
امتحاں پھر بھی ہمیں سے ترا منشا کیا ہے
تیری رحمت نے گہنگار کو سمجھا کیا ہے
ہم سے پہلے تیرے عالم کے عجب عالم تھے
مشت بھر خاک نہ تھی اور نہ کوئی آدم تھے
جب ہوئی کا را گری تیری وہاں پر ہم تھے
کیا عبادت کے لئے تیری ملائک کم تھے
ہم کو بے وجہ بنایا کوئی احسان نہیں
ہم سے پہلے تو تری کوئی بھی پہچان نہیں
میرے اعمال بھلے اور بُرے تونے کئے
کام زیبا جو ہیں تجھکو وہ ترے تو نے کئے
زخم ماضی کے تھے دل میں جو ہرے تو نے کئے
در احساس مرے کھوٹے کھرے تو نے کئے
تیری مرضی میں جو آئے وہی تو کرتا ہے
پھول سے رنگ جدا اور کبھی بو کرتا ہے
پتے صحرا پہ اگر ایڑیاں رگڑی ہم نے
پیاس پیاسوں کی بجھائی ہے اُسی زم زم نے
بالیقیں حسنِ عمل دیکھ لیا عالم نے
لاج آدم کی بچا رکھی ہے اک آدم نے
تو اگر چاہتا کوثر بھی پلا سکتا تھا
تشنہ لب کو لب کوثر بھی بلا سکتا تھا
مسجد اقصیٰ پر قابض ہیں عدوئے اسلام
جنگ ہم کرتے ہیں تو کرتا ہے ہم کو ناکام
یعنی مقصد ہے ترا ہم رہیں ہو کے بدنام
اب نہیں چلتا کہیں نعرہ تکبیر سے کام
یہ بتا کب تری رحمت بھلا ساتھ آے گی
مسجد اقصیٰ فلسطین کے ہاتھ آے گی
یہ صداقت ہے ترے نام پہ ایماں رکّھا
طاق دل پر ترے اخلاص کا قرآں رکّھا
تجھ کو ممدوح کہا دل کو ثنا خواں رکّھا
بزم عصمت میں ترا ذکر چراغاں رکّھا
اس مشقت کے عوض تو نے مجھے خوار کیا
یہ خطا مجھ سے ہوئی میں نے تجھے پیار کیا
جرم کیا ہے میرا محشر جو بپا ہونا ہے
اتنا معلوم ہے بندے کو سزا ہونا ہے
تجھ سے سمجھوتا بھی کیا تجھ سے جدا ہونا ہے
تو خفا ہو جا اگر تجھکو خفا ہونا ہے
جن و انساں ملے دوزخ میں جلانے کیلئے
باقی ہر شئے ہے کیا جنت میں سجانے کیلئے
Amjad Khan
Copy
آنکھ وہ گھر ہے کہ جس میں رہیں چھپ کر آنسو
آنکھ وہ گھر ہے کہ جس میں رہیں چھپ کر آنسو
غم جو دستک دے تو آجاتے ہیں باہر آنسو
برف کی طرح پکھل جاتا ہے فطرت ان کی
خشک ہو جائیں تو بن جائیں گے پھر آنسو
ضبط غم ساتھ اگر چھوڑ دے یہ بھی ہوگا
ایک ہی رات میں بھر دیں گے سمندر آنسو
کتنی غیرت ہے کہ ہو جاتے ہیں پانی پانی
آپ خود دیکھ لیں انگلی سے اٹھا کر آنسو
تم یہ کہتے ہو کہ اب چھوڑ دو رونا دھونا
میں یہ کہتا ہوں کہ ہے میرا مقدر آنسو
میں نہ کیونکر انھیں الماس کے موتی سمجھوں
میری آنکھوں میں جواں ہوتے ہیں پل کر آنسو
جانے کیا اہل چمن پر ہے مصیبت انجمؔ
خون کی شکل میں روتے ہیں کبوتر آنسو
امجد خان
Copy
دنیا کا دوسرا شکوہ انجم لکھنوی نے لکھا ہے
راہ اقبال پر چلنے کی تمنا کر کے
دل بھی رنجیدہ ہےالٰلّه سے شکوہ کر کے
اصفیا سمجھیں گے ہر بات کہ صوفی میں ہوں
کیا زمانے کو ملے گا مجھے رسوا کر کے
انجم لکھنویؔ
شکوہ
تیری رحمت کو نہ کیوں دیدہ پر نم ڈھونڈھے
ہے جسے تیری ضرورت وہی پیہم ڈھونڈھے
پھول کو گلشن ہستی میں بھی شبنم ڈھونڈ ھے
! خلد آدم کو کبھی خلد کو آدم ڈھونڈ ھے
شکوۂ عبد بھی سن کر تیرا پردہ نہ اُٹھا
تیری مرضی تو مجھے جلوہ دکھا یا نہ دکھا
طالب مدح تھا اب طالب شکوہ میں ہوں
جو ہے دریا کا طلبگار وہ قطرہ میں ہوں
تو ہے معبود مرا اور ترا بندہ میں ہوں
مالک حسن ہے تو عشق کا جلوہ میں ہوں
اپنے عاشق کو محبت کی سزا کس نے دی
بر سر دار انا الحق کی صدا کس نے دی
مشت بھر خاک سے اور ہستی آدم کا وجود
میں نے مانا یہ تری کارا گری ہے معبود
اور فرشتے پس آدم بھی ہوئے سر بہ سجود
ہیں اُسی نسل سے کیونکر یہ مسلمانو ہنود
کچھ نصیری ہیں نصارا بھی ہیں عیسائی بھی
جز مرے کرتے ہیں کیا تیری پذیرائی بھی
تیرے کلمے کا بھی اعلان کیا ہے ہم نے
کتنی قوموں کو مسلمان کیا ہے ہم نے
قریہ قریہ تجھے ذیشان کیا ہے ہم نے
مرحلہ سخت تھا آسان کیا ہے ہم نے
ہم اگر حق پر ہیں تو عرش سے آواز تو دے
یا بلالے ہمیں اور قوت پرواز تو دے
نام مسجد ہے ترا گھر جو بنا رکھا ہے
فرش عصمت کو بھی سجدوں سے سجا رکھا ہے
یاد میں نے بھی تجھے وقت دعا رکھا ہے
پر دُعاؤں میں اثر تو نے بھی کیا رکھا ہے
جینے والے کو دعا دیتا ہوں مر جاتا ہے
میرے ایمان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے
میں ترے نام کی تسبیح پڑھا کرتا ہوں
سجده شکر بصد شوق ادا کرتا ہوں
میں بہر حال تجھے راضی رضا کرتا ہوں
بخش دے میری خطائیں یہ دُعا کرتا ہوں
تو اگر ہے تو عمل کی مرے تائید بھی کر
جاری میرے لئے تو چشمہ تو حید بھی کر
لامکاں تو ہے حرم اصل تیرا گھر بھی نہیں
وہ کلیسا بھی نہیں مسجد و مندر بھی نہیں
تیرے رہنے کی جگہ یہ دل مضطر بھی نہیں
نور جب تو ہے ترا پھر کوئی ہمسر بھی نہیں
چاند سمجھوں تجھے سورج یا ستارہ سمجھوں
کوئی پہچان بتا کچھ تو اشارہ سمجھوں!
حق تجھے مان لیا خود ر ہے عابد بن کر
بندگی کی ہے تری واقعی زاہد بن کر
دعوتیں بانٹیں ترے دین کا قاصد بن کر
جو مخالف ہوا لڑ بیٹھے مجاہد بن کر
ہر جگہ پرچم توحید کو گاڑا کس نے
باب خیبر کو دو انگلی سے اُکھاڑا کس نے
نام زندہ ر ہے تیرا کہ اُٹھائی افتاد
جب سنائی تو سنائی تجھے اپنی روداد
تیغ باطل سے نہتھا لڑا بن کر فولاد
مڑ کے دیکھا نہ کبھی گھر کی طرف وقت جہاد
فوج اعدا نہ رہی جنگ کے منظر بدلے
میری ٹھوکر سے ہی پتھر کے مقدر بد لے
میں نے کردار زمانے کا پلٹتے دیکھا
تیرا پھیلا ہوا اسلام سمٹتے دیکھا
تو نے کب جنگ میں پیچھے مجھے ہٹتے دیکھا
کٹ گیا میرا گلا تو نے بھی کٹتے دیکھا
آسماں میری دعاؤں سے کہیں دُور نہ تھا
رن میں مجبور تھا میں تو کوئی مجبور نہ تھا
تیرا ادنی سا کرشمہ ہیں سبھی شجر و حجر
تو نے پیدا کئے دریاؤں میں بھی لعل و گہر
اتنی فرصت بھی نہ دی دیکھتا سارے منظر
مجھکو دوڑاتا رہا ہاتھ میں پرچم دیگر
تیرے اسلام کی تبلیغ مرے دم سے ہوئی
تیری دنیا کی شروعات بھی آدم سے ہوئی
لات و عزہ و ہبل کا تو بڑا لشکر تھا
غاصبانہ جہاں قبضہ تھا وہ تیرا گھر تھا
جب خدائی تھی تری تب بھی خدا پتھر تھا
گویا تخلیق بتا ں کیلئے اک آزر تھا
ہم نے طوفان نحوست کی روش موڑی ہے
یعنی پتھر کے خداؤں کی کمر توڑی ہے
تیرا محبوب نہ ہوتا تو ترا کیا ہوتا
بندگی کا تری ہر موڑ پہ سودا ہوتا
تجھکو سجدہ نہیں پھر غیر کا سجدہ ہوتا
کیسا لگتا تجھے میں کہتا جو اچھا ہوتا
سن کے یہ بات میری تجھکو جلال آجاتا
تجھکو محبوب کا اُس وقت خیال آجاتا
فاقہ کرتے ہیں مسلمان شکم سیر ہنود
شکر کرتے ہیں ادا، پھر بھی ترا سر بہ سجود
کیوں نہیں دیکھتا جب ہر جگہ تو ہے موجود
تجھکو پرواہ نہیں ہے میری شاید معبود
تو ہے رزاق تو ہی سبکو غذا دیتا ہے
پھر مجھے کس لئے تو بھوکا سلا دیتا ہے
ذہن قاصر ہے کہ میں کیسے گنہگار ہوا
تیری رحمت کا بحر کیف طلبگار ہوا
پھر بھی تیرا نہ کسی موڑ پہ دیدار ہوا
میں تولد ہوا دنیا میں یہ بیکار ہوا
تو ہے معبود تو بندے سے جدائی کیسی
جو میرے کام نہ آئے وہ خدائی کیسی
کیا ستم ہے ترا پہلے مجھے جنت دیدی
میں نے مانگی نہ تھی خود اپنی خلافت دیدی
اپنی من مانی جو چاہی وہ وصیت دیدی
اور پھر خلد بدر ہو یہ اجازت دیدی
مجھکو دنیا میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا
تو نے اک مٹی کے انسان کا دل توڑ دیا
جب مٹانا ہی تھا کیوں مجھکو بنایا تو نے
کیوں فرشتوں سے مرا سجدہ کرایا تو نے
کیوں بلندی پہ بیٹھا کر یوں گرایا تو نے
کیسا احسان ترا جو کہ جتایا تو نے
اے خدا تو ہی بتا کیا یہ تری مرضی ہے
یہ جو مرضی ہے تری اس میں بھی خود غرضی ہے
تیری دھرتی ہے مگر صورت دہقاں ہم ہیں
ایک اک دانہ گندم کے نگہباں ہم ہیں
زینت غنچۂ گل بھی ہیں گلستاں ہم ہیں
تیری دنیا کی سجاوٹ کے بھی ساماں ہم ہیں
امتحاں پھر بھی ہمیں سے ترا منشا کیا ہے
تیری رحمت نے گہنگار کو سمجھا کیا ہے
ہم سے پہلے تیرے عالم کے عجب عالم تھے
مشت بھر خاک نہ تھی اور نہ کوئی آدم تھے
جب ہوئی کا را گری تیری وہاں پر ہم تھے
کیا عبادت کے لئے تیری ملائک کم تھے
ہم کو بے وجہ بنایا کوئی احسان نہیں
ہم سے پہلے تو تری کوئی بھی پہچان نہیں
میرے اعمال بھلے اور بُرے تونے کئے
کام زیبا جو ہیں تجھکو وہ ترے تو نے کئے
زخم ماضی کے تھے دل میں جو ہرے تو نے کئے
در احساس مرے کھوٹے کھرے تو نے کئے
تیری مرضی میں جو آئے وہی تو کرتا ہے
پھول سے رنگ جدا اور کبھی بو کرتا ہے
پتے صحرا پہ اگر ایڑیاں رگڑی ہم نے
پیاس پیاسوں کی بجھائی ہے اُسی زم زم نے
بالیقیں حسنِ عمل دیکھ لیا عالم نے
لاج آدم کی بچا رکھی ہے اک آدم نے
تو اگر چاہتا کوثر بھی پلا سکتا تھا
تشنہ لب کو لب کوثر بھی بلا سکتا تھا
مسجد اقصیٰ پر قابض ہیں عدوئے اسلام
جنگ ہم کرتے ہیں تو کرتا ہے ہم کو ناکام
یعنی مقصد ہے ترا ہم رہیں ہو کے بدنام
اب نہیں چلتا کہیں نعرہ تکبیر سے کام
یہ بتا کب تری رحمت بھلا ساتھ آے گی
مسجد اقصیٰ فلسطین کے ہاتھ آے گی
یہ صداقت ہے ترے نام پہ ایماں رکّھا
طاق دل پر ترے اخلاص کا قرآں رکّھا
تجھ کو ممدوح کہا دل کو ثنا خواں رکّھا
بزم عصمت میں ترا ذکر چراغاں رکّھا
اس مشقت کے عوض تو نے مجھے خوار کیا
یہ خطا مجھ سے ہوئی میں نے تجھے پیار کیا
جرم کیا ہے میرا محشر جو بپا ہونا ہے
اتنا معلوم ہے بندے کو سزا ہونا ہے
تجھ سے سمجھوتا بھی کیا تجھ سے جدا ہونا ہے
تو خفا ہو جا اگر تجھکو خفا ہونا ہے
جن و انساں ملے دوزخ میں جلانے کیلئے
باقی ہر شئے ہے کیا جنت میں سجانے کیلئے
امجد خان
Copy
دل یادوں کا محل بنا ہے دیوار و در روتے ہیں
دل یادوں کا محل بنا ہے دیوار و در روتے ہیں
شام ڈھلے اسلاف کے سائے سینے لگ کر روتے ہیں
آبلہ پائی دیکھنے والو کیا ہوگا احساس تمہیں
مس ہوتے ہیں جب چھالوں سے راہ کے کنکر روتے ہیں
بیتابی کیا شئے ہوتی ہے رات میں آکر دیکھو تو
گھر کے اندر رونے والے گھر کے باہر روتے ہیں
برق تپاں کا ظلم ہے ایسا سب کا شانے راکھ ہوئے
مسجد کی مینار پہ بیٹھے آج کبوتر روتے ہیں
ہم سے بغاوت کرنے والوں کی حالت کچھ ایسی ہے
رات گئے احساس کے دامن میں وہ چھپ کر روتے ہیں
صرف میرے حصے میں تلچھٹ اسکو صراحی بھر کے شراب تشنہ
لبی کو دیکھ کے میخانے کے ساغر روتے ہیں
انجمؔ یادوں کے میلے میں گھومنے جانا ٹھیک نہیں
گھر کا رستہ بھولنے والے بیٹھ کے اکثر روتے ہیں
امجد خان
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets