Poetries by Arsalan Ahmed Arsal
مٹ رہيں ہيں نشان تيرے پر ہميں سروکار نہيں ميرے زمانے ميں خال ہيں اے ديں تيرے زمانے والے
ہم چاہت جاناں ميں غرق اور وہ تيرے چاہنے والے
سجاتے تھے تيري جبيں کو اپنے لہوں سے وہ
اور ہم ہتھيلی ناز پہ رنگ حنا سجانے والے
کس طرح سے سنوارينگے اے ديں ہم خدوخال تيرے
پہلوئے يار ميں بيٹھ کے ہم زلف نازاں سلجھانے والے
ميرے زمانے ميں خال ہيں اے ديں تيرے زمانے والے
ہم چاہت جاناں ميں غرق اور وہ تيرے چاہنے والے
بے کردار جسوم کو ہم حور گمان کر بيٹھے
شراب خبث کو ہم طہور گمان کر بيٹھے
بھلا بيٹھے قہّار کی ہم قہّاريت يکسر
جبّار کو فقط ہم غفور گمان کر بيٹھے
سوچيں گے ہم ہوگا جس روز روز محشر ارسل
کہ کرنا تھا کيا اور ديکھيے ہم کيا کر بيٹھے
پھر کہاں جائينگے اس روز يہ پچھتانے والے
ميرے زمانے ميں خال ہيں اے ديں تيرے زمانے والے
ہم چاہت جاناں ميں غرق اور وہ تيرے چاہنے والے
وعدہ غير پہ ہيں پرشوق کيوں تجھ پہ ہميں اعتبار نہيں
مٹ رہيں ہيں نشان تيرے پر ہميں سرو کار نہيں
اطمينان قلب ہے حاصل فقط ہميں چند ٹکڑوں کے عوض
محمود تو ہے منتظر مگر اب کوئی ہم ميں ايّاز نہيں
عرش کے سوار تھے يا ربّ وہ مٹّی پہ ليٹے ہوئے
پر آج ہم ميں کوئی ويسا صاحب فراش نہيں
اور کہاں اب وہ فرشتہ عرش کو فرش پہ بلانے والے
ميرے زمانے ميں خال ہيں اے ديں تيرے زمانے والے
ہم چاہت جاناں ميں غرق اور وہ تيرے چاہنے والے Arsalan Ahmed Arsal
ہم چاہت جاناں ميں غرق اور وہ تيرے چاہنے والے
سجاتے تھے تيري جبيں کو اپنے لہوں سے وہ
اور ہم ہتھيلی ناز پہ رنگ حنا سجانے والے
کس طرح سے سنوارينگے اے ديں ہم خدوخال تيرے
پہلوئے يار ميں بيٹھ کے ہم زلف نازاں سلجھانے والے
ميرے زمانے ميں خال ہيں اے ديں تيرے زمانے والے
ہم چاہت جاناں ميں غرق اور وہ تيرے چاہنے والے
بے کردار جسوم کو ہم حور گمان کر بيٹھے
شراب خبث کو ہم طہور گمان کر بيٹھے
بھلا بيٹھے قہّار کی ہم قہّاريت يکسر
جبّار کو فقط ہم غفور گمان کر بيٹھے
سوچيں گے ہم ہوگا جس روز روز محشر ارسل
کہ کرنا تھا کيا اور ديکھيے ہم کيا کر بيٹھے
پھر کہاں جائينگے اس روز يہ پچھتانے والے
ميرے زمانے ميں خال ہيں اے ديں تيرے زمانے والے
ہم چاہت جاناں ميں غرق اور وہ تيرے چاہنے والے
وعدہ غير پہ ہيں پرشوق کيوں تجھ پہ ہميں اعتبار نہيں
مٹ رہيں ہيں نشان تيرے پر ہميں سرو کار نہيں
اطمينان قلب ہے حاصل فقط ہميں چند ٹکڑوں کے عوض
محمود تو ہے منتظر مگر اب کوئی ہم ميں ايّاز نہيں
عرش کے سوار تھے يا ربّ وہ مٹّی پہ ليٹے ہوئے
پر آج ہم ميں کوئی ويسا صاحب فراش نہيں
اور کہاں اب وہ فرشتہ عرش کو فرش پہ بلانے والے
ميرے زمانے ميں خال ہيں اے ديں تيرے زمانے والے
ہم چاہت جاناں ميں غرق اور وہ تيرے چاہنے والے Arsalan Ahmed Arsal
حکايتوں ميں ہم فقط طرز قلم ديکھتے ہيں حکايتوں ميں ہم فقط طرز قلم ديکھتے ہيں
الجھی آدميت کو مصروف نجم ديکھتے ہيں
ھويداں تھی کبھی تلاوت قرآنی اعضائے جسم سے
آج موسيقی پہ مسلماں کے تھرکتے قدم ديکھتے ہيں
حـقّ گـويائی تھا کبـھی جـن کا ديـن و ايـماں ارسل
اب خامشئی مسلم بر تقاضائے مصلحت ديکھتے ہيں
اور خاک نہيں جـن کـو گـوارہ زرق قـباؤں پـر اپـنی
پھر کيوں وہ تائيد غيبی مثلبدر ديکھتے ہيں
مکين فردوس ہيں وہ، تھے جو صاحب ٹاٹ و پيوند
اور ہم اجسام خاکی اطلس کے پيرہن ديکھتے ہيں
عظمت مسلم ہے تقاضی رفعت کردار کو ہر چند
تيری حشمت کو ارسل کہاں يہ اہل نظر ديکھتے ہيں Arsalan Ahmed Arsal
الجھی آدميت کو مصروف نجم ديکھتے ہيں
ھويداں تھی کبھی تلاوت قرآنی اعضائے جسم سے
آج موسيقی پہ مسلماں کے تھرکتے قدم ديکھتے ہيں
حـقّ گـويائی تھا کبـھی جـن کا ديـن و ايـماں ارسل
اب خامشئی مسلم بر تقاضائے مصلحت ديکھتے ہيں
اور خاک نہيں جـن کـو گـوارہ زرق قـباؤں پـر اپـنی
پھر کيوں وہ تائيد غيبی مثلبدر ديکھتے ہيں
مکين فردوس ہيں وہ، تھے جو صاحب ٹاٹ و پيوند
اور ہم اجسام خاکی اطلس کے پيرہن ديکھتے ہيں
عظمت مسلم ہے تقاضی رفعت کردار کو ہر چند
تيری حشمت کو ارسل کہاں يہ اہل نظر ديکھتے ہيں Arsalan Ahmed Arsal
کہ پھر ہر سجدہ شب ميرا صبح کی تلاش کو پہنچا کيا بتاؤں دوستوں تمہيں کہ ميں کس دوار کو پہنچا
ميں صاحبِ اختيار کسطرح عہدۂ برخاست کو پہنچا
صاحبوں شب نکاح تھی ميں تھا اور وہ تھے
يوں لگا گويا عشق ميرا اب اختتام کو پہنچا
ايجابِ اسيری کا اس وقت مجھے گمان ہوا
جس لمحہ لفظِ قبول ميرا اپنے انجام کو پہنچا
قبل از نکاح جو ہميشہ ملتجی انداز رہا کيے
بعد از نکاح انکا ہر لفظ درجہ فرمان کو پہنچا
رتبہ پيری بھی تو تھا انکے ظلم و ستم کا تقاضی
يونہی تو نہيں يہ ارسل اس مقامِ فراز کو پہنچا
آگئے وہ لمحاتِ کرب اکبار پھر سے ياد مجھے
جس دم دست ميرا زخم بيلن کے نشان کو پہنچا
پر مبتلائے درد جسم ہوں تو اطمينان روح بھی ہے
کہ زخم در زخم سہی مگر انسانيت کی معراج کو پہنچا
اور اسقدر کام آيا انکا خوفِ قرب عبادت کو ميری
کہ پھر ہر سجدہ شب ميرا صبح کی تلاش کو پہنچا Arsalan Ahmed Arsal
ميں صاحبِ اختيار کسطرح عہدۂ برخاست کو پہنچا
صاحبوں شب نکاح تھی ميں تھا اور وہ تھے
يوں لگا گويا عشق ميرا اب اختتام کو پہنچا
ايجابِ اسيری کا اس وقت مجھے گمان ہوا
جس لمحہ لفظِ قبول ميرا اپنے انجام کو پہنچا
قبل از نکاح جو ہميشہ ملتجی انداز رہا کيے
بعد از نکاح انکا ہر لفظ درجہ فرمان کو پہنچا
رتبہ پيری بھی تو تھا انکے ظلم و ستم کا تقاضی
يونہی تو نہيں يہ ارسل اس مقامِ فراز کو پہنچا
آگئے وہ لمحاتِ کرب اکبار پھر سے ياد مجھے
جس دم دست ميرا زخم بيلن کے نشان کو پہنچا
پر مبتلائے درد جسم ہوں تو اطمينان روح بھی ہے
کہ زخم در زخم سہی مگر انسانيت کی معراج کو پہنچا
اور اسقدر کام آيا انکا خوفِ قرب عبادت کو ميری
کہ پھر ہر سجدہ شب ميرا صبح کی تلاش کو پہنچا Arsalan Ahmed Arsal
تمہارے لطف و کرم کے ہيں يہ حوصلے تمہارے لطف و کرم کے ہيں يہ حوصلے
کبھی اجنبی بن کے نہ اب تم ملا کرو
آداب زندگی تو تم بـہـت پڑھ چـکے
کبھی ميری بے ادب نظر بھی تم پڑھا کرو
تمہيں ميـری ان دوريوں کا ہـے واسطہ
کبـھـی تو پـاس ميرے بھی تم رھا کرو
انتہائے عشق کے يہ بھی لوازم ہيں کہ
کبھی تم روٹھا کرو، کبھی تم گلا کرو
کيوں دبا ديے ہيں تم نے جذباتِ دل
کبھی کچھ سنا کرو، کبھی کچھ کہا کرو
مل جائے ربطِ باہم کو اب ساز دل
اب ميں يہ دعا کروں اور يہ تم دعا کرو Arsalan Ahmed Arsal
کبھی اجنبی بن کے نہ اب تم ملا کرو
آداب زندگی تو تم بـہـت پڑھ چـکے
کبھی ميری بے ادب نظر بھی تم پڑھا کرو
تمہيں ميـری ان دوريوں کا ہـے واسطہ
کبـھـی تو پـاس ميرے بھی تم رھا کرو
انتہائے عشق کے يہ بھی لوازم ہيں کہ
کبھی تم روٹھا کرو، کبھی تم گلا کرو
کيوں دبا ديے ہيں تم نے جذباتِ دل
کبھی کچھ سنا کرو، کبھی کچھ کہا کرو
مل جائے ربطِ باہم کو اب ساز دل
اب ميں يہ دعا کروں اور يہ تم دعا کرو Arsalan Ahmed Arsal
کيوں کرگس کی اڑان ہے تيری اے شاہين مزاج ملحوظ ـ خاطر ہے طبعيت ـ نازـ مسلماں ورنہ
بتاتے کہ کل کيا تھے وہ اورہم کيا ہيں آج
بيٹھيں ہيں ہم اب بھی زلف ـ نازاں سے لپٹ کر
اور چھوڑ چکے تھے وہ عمر ـ ناز ميں ناز و انداز
مقام ـ فراز ہيں قربائی مسلم کے اب بھی تقاضی
يونہی تو نہيں زندہ ہيں آج بھی وہ ارباب ـ خاص
چند لمحوں ميں سمٹ آئی تھی حقيقت ـ زندگی
چند سروں نے پايا تھا گرتے ہوئے فلسفہ حيات
منحصر ہے قربانی مسلم پہ حيات ـ انسانی ورنہ
کل آزاد تھے وہ غلام اور آج غلام ہيں يہ آزاد
لبادۂ فرہنگ کيوں اوڑہ کے بيٹھا ہے اے نوجواں
کہاں تو پيکر ـ حيا اور کہاں يہ فرہنگ ننگ ذات
تو تلاطم ـ سمندر ہے تجھے ساحل سے کيا مطب
کيوں کرگس کی اڑان ہے تيری اے شاہين مزاج
چل اٹھ کہ پھر سکھا دے انسانيت انساں کو
ديکھ کسقدر تشنہ لب ہيں جوابات کو سوالات Arsalan Ahmed Arsal
بتاتے کہ کل کيا تھے وہ اورہم کيا ہيں آج
بيٹھيں ہيں ہم اب بھی زلف ـ نازاں سے لپٹ کر
اور چھوڑ چکے تھے وہ عمر ـ ناز ميں ناز و انداز
مقام ـ فراز ہيں قربائی مسلم کے اب بھی تقاضی
يونہی تو نہيں زندہ ہيں آج بھی وہ ارباب ـ خاص
چند لمحوں ميں سمٹ آئی تھی حقيقت ـ زندگی
چند سروں نے پايا تھا گرتے ہوئے فلسفہ حيات
منحصر ہے قربانی مسلم پہ حيات ـ انسانی ورنہ
کل آزاد تھے وہ غلام اور آج غلام ہيں يہ آزاد
لبادۂ فرہنگ کيوں اوڑہ کے بيٹھا ہے اے نوجواں
کہاں تو پيکر ـ حيا اور کہاں يہ فرہنگ ننگ ذات
تو تلاطم ـ سمندر ہے تجھے ساحل سے کيا مطب
کيوں کرگس کی اڑان ہے تيری اے شاہين مزاج
چل اٹھ کہ پھر سکھا دے انسانيت انساں کو
ديکھ کسقدر تشنہ لب ہيں جوابات کو سوالات Arsalan Ahmed Arsal