Poetries by Asad
عشق ھے رنج و غم میں مسکرانا عشق ہے
یار کی گلیوں میں جانا عشق ہے
عشق مشک چھپائے کبھی چھپتا نہیں
تنہائی میں آنسو بہانہ عشق ہے
دل لگی کے یوں تو رنگ ہیں ھزار
ہاں مگر سب سے پرانا عشق ہے
عشق کے آگے ہیچ ہے عالم کل تمام
اس جہان میں جز شاہانہ عشق ہے
دیر سے آنا سہی مگر آیا تو دل
یوں بھی دل کا آخر ٹھکانہ عشق ہے
بسکہ ہے دشوار کسی کے دل میں جاء
ہاں مگر بس ایک بہانہ عشق ہے
مجنون کو لیلےآ سے جو تھا کبھی
عشق وہی میری جان جانا عشق ہے
کیوں کرے انکار سولی چڑھنے سے؟
کہ منصور کا مزاج عاشقانہ عشق ہے اسد جھنڈیر
یار کی گلیوں میں جانا عشق ہے
عشق مشک چھپائے کبھی چھپتا نہیں
تنہائی میں آنسو بہانہ عشق ہے
دل لگی کے یوں تو رنگ ہیں ھزار
ہاں مگر سب سے پرانا عشق ہے
عشق کے آگے ہیچ ہے عالم کل تمام
اس جہان میں جز شاہانہ عشق ہے
دیر سے آنا سہی مگر آیا تو دل
یوں بھی دل کا آخر ٹھکانہ عشق ہے
بسکہ ہے دشوار کسی کے دل میں جاء
ہاں مگر بس ایک بہانہ عشق ہے
مجنون کو لیلےآ سے جو تھا کبھی
عشق وہی میری جان جانا عشق ہے
کیوں کرے انکار سولی چڑھنے سے؟
کہ منصور کا مزاج عاشقانہ عشق ہے اسد جھنڈیر
پیار بے پناہ پیار بے پناہ اس کو کرتے ہیں
ہاں مگر کہتے ہوے ڈرتے ہیں
دل دھڑکتا ہے زوروں سے اپنا
جب گلی سے اسکی گذرتے ہیں
اس کو دیکھے ہے زمانہ بیت گیا
ملنے کی آس میں روز مرتے ہیں
عشق آتش ہے خوب جانتے ہیں ہم
غم تنہائی میں روز جلتے ہیں
یاد نے اس کی مار رکھا ہے
آہ شب و روز ٹوٹتے بکھرتے ہیں
ہے اسد انتظار کسی کے آنے کا
روز پلکیں بچھائے راہ تکتے ہیں اسد جھنڈیر
ہاں مگر کہتے ہوے ڈرتے ہیں
دل دھڑکتا ہے زوروں سے اپنا
جب گلی سے اسکی گذرتے ہیں
اس کو دیکھے ہے زمانہ بیت گیا
ملنے کی آس میں روز مرتے ہیں
عشق آتش ہے خوب جانتے ہیں ہم
غم تنہائی میں روز جلتے ہیں
یاد نے اس کی مار رکھا ہے
آہ شب و روز ٹوٹتے بکھرتے ہیں
ہے اسد انتظار کسی کے آنے کا
روز پلکیں بچھائے راہ تکتے ہیں اسد جھنڈیر
اپنوں کا لہو بازار ظلمت پھر سے گرمانے چلے ہیں
وقت کے درندے قہر برپانے چلے ہیں
اپنے ہی لوگوں پر چلاتے ہیں گولیاں
اپنے ہی لوگوں کا لہو بہانے چلے ہیں
کیا ہی بت بنے بیٹھے ہیں قاضی وقت کے
منصف خود انصاف کی کھلی اڑانے چلے ہیں
کیا ہی گندہ کھیل ہے یہ انا پرستی بھی
تنگ نظری کی گنگا میں سب نہانے چلے ہیں
حیران ہوں اقتدار کے بوکھے کیا کچھ نہیں کرتے
یہ دولت کے پوجاری ایمان تک گنوانے چلے ہیں
اسد سلام ان مجاہدوں پر صد سلام ہزارہا
جو ظلم کے آگے آواز حق اٹھانے چلے ہیں اسد جھنڈیر
وقت کے درندے قہر برپانے چلے ہیں
اپنے ہی لوگوں پر چلاتے ہیں گولیاں
اپنے ہی لوگوں کا لہو بہانے چلے ہیں
کیا ہی بت بنے بیٹھے ہیں قاضی وقت کے
منصف خود انصاف کی کھلی اڑانے چلے ہیں
کیا ہی گندہ کھیل ہے یہ انا پرستی بھی
تنگ نظری کی گنگا میں سب نہانے چلے ہیں
حیران ہوں اقتدار کے بوکھے کیا کچھ نہیں کرتے
یہ دولت کے پوجاری ایمان تک گنوانے چلے ہیں
اسد سلام ان مجاہدوں پر صد سلام ہزارہا
جو ظلم کے آگے آواز حق اٹھانے چلے ہیں اسد جھنڈیر
خون ناحق۔۔۔ظلے شاہ لخت جگر تھا کسی کے آنکھون کا تارا تھا
زندگی تھا وہ کسی کے جینے کا سہارا تھا
وہ جس کو بے دردی سے قتل کیا تم نے
تمہاری طرح والدین کو وہ بھی تو پیارا تھا
کیوں؟ ناحق قتل کیا تم نے نہتے انسان کا
کیوں؟ حکم بجاء لائے تم ظالم حکمران کا
کیا ہی بے حسی نے تم کو اندھا کر دیا
کیا ہی ضمیر فروشی نے تمکو گندہ کر دیا
یاد رکھنا کہ تم کو بھی ایک دن مرنا ہے
اس خون نا حق کا اسد حساب دینا ہے
اسد جھنڈیر
زندگی تھا وہ کسی کے جینے کا سہارا تھا
وہ جس کو بے دردی سے قتل کیا تم نے
تمہاری طرح والدین کو وہ بھی تو پیارا تھا
کیوں؟ ناحق قتل کیا تم نے نہتے انسان کا
کیوں؟ حکم بجاء لائے تم ظالم حکمران کا
کیا ہی بے حسی نے تم کو اندھا کر دیا
کیا ہی ضمیر فروشی نے تمکو گندہ کر دیا
یاد رکھنا کہ تم کو بھی ایک دن مرنا ہے
اس خون نا حق کا اسد حساب دینا ہے
اسد جھنڈیر
کشمیر کے لیئے آزادی کے خوابوں کی تعبیر کے لیئے لکھا
جب کبھی ظلم دیکھا تو کشمیر کے لیئے لکھا
دور حاجر میں بھی آہ یہ غلاماناں زندگی
آخر وجہ کیا ہے؟ کچھ تشہیر کے لیئے لکھا
کیا؟ ان شہیدوں نے کیا تھا کوئی گناہ
بس حق مانگتی ہوئی تصویر کے لیئے لکھا
بس ظلم و جبر و بربریت دیکھا کیے برسوں
بس خون کھول اٹھا اسد ضمیر کلیئے لکھا اسد جھنڈیر
جب کبھی ظلم دیکھا تو کشمیر کے لیئے لکھا
دور حاجر میں بھی آہ یہ غلاماناں زندگی
آخر وجہ کیا ہے؟ کچھ تشہیر کے لیئے لکھا
کیا؟ ان شہیدوں نے کیا تھا کوئی گناہ
بس حق مانگتی ہوئی تصویر کے لیئے لکھا
بس ظلم و جبر و بربریت دیکھا کیے برسوں
بس خون کھول اٹھا اسد ضمیر کلیئے لکھا اسد جھنڈیر
تنگ نظری دلوں میں چاہت کا فقدان ہے
ہر طرف نفرت کا روجھان ہے
کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا
یہاں جسکو دیکھو بدگماں ہے
ہر کوئی تنگ ہے ایک دوسرے سے
ہر ایک الگ ہے گریزاں ہے
کوئی کسی کو برداشت نہیں کرتا
جس کو دیکھو بس وہی جوالاں ہے
یہ تنگ نظری یہ مفاد پرستی
لے ڈوبے گی اک دن ارماں ہے
جسکو اپنے اعمالوں کی خود خبر نہیں
وہ غیر کی برائی کا ترجماں ہے
چند ٹکوں کیخاطر بک جاتا ہے فٹ سے
کیا ہی کم بخت تیرا آہ ایمان ہے اسد جھنڈیر
ہر طرف نفرت کا روجھان ہے
کوئی کسی پر اعتبار نہیں کرتا
یہاں جسکو دیکھو بدگماں ہے
ہر کوئی تنگ ہے ایک دوسرے سے
ہر ایک الگ ہے گریزاں ہے
کوئی کسی کو برداشت نہیں کرتا
جس کو دیکھو بس وہی جوالاں ہے
یہ تنگ نظری یہ مفاد پرستی
لے ڈوبے گی اک دن ارماں ہے
جسکو اپنے اعمالوں کی خود خبر نہیں
وہ غیر کی برائی کا ترجماں ہے
چند ٹکوں کیخاطر بک جاتا ہے فٹ سے
کیا ہی کم بخت تیرا آہ ایمان ہے اسد جھنڈیر
زمانہ بدل گیا ہے دنیا بدل گئی ہے زمانہ بدل گیا ہے
زندگی جینے کا انداز پرانہ بدل رہا ہے
دوست احباب سارے خود غرض بن گئے ہیں
وقت کے ساتھ ساتھ یارانہ بدل رہا ہے
خون کے رشتے سارے پانی ہو گئے ہیں
ہر ایک رشتہ خود سے بیگانہ بدل گیا ہے
پھر نہ کہیو کہ لیلا تنگ تھی مجنوں سے
اک غلط فہمی ہے سب بیانہ بدل گیا ہے
جب عشق وہی ہے تو عاشق نہ ہو کیوںکر؟
سن بے عقل کے اندھے زمانہ بدل گیا ہے
ہر دل حسن کے آگے گھٹنے ٹیکتا ہے
ٹیکے بھی نہ کیوںکر کہ معاشقانہ بدل گیا ہے
ڈہونڈہوں کہاں؟ اس کو اب اے دل نادان
سنا ہے کہ وہ بستی ٹھکانہ بدل گیا ہے
کل جس پر نازان تھا دل یار اسد اپنا
آج وہی شخص جان جانہ بدل گیا ہے اسد جھنڈیر
زندگی جینے کا انداز پرانہ بدل رہا ہے
دوست احباب سارے خود غرض بن گئے ہیں
وقت کے ساتھ ساتھ یارانہ بدل رہا ہے
خون کے رشتے سارے پانی ہو گئے ہیں
ہر ایک رشتہ خود سے بیگانہ بدل گیا ہے
پھر نہ کہیو کہ لیلا تنگ تھی مجنوں سے
اک غلط فہمی ہے سب بیانہ بدل گیا ہے
جب عشق وہی ہے تو عاشق نہ ہو کیوںکر؟
سن بے عقل کے اندھے زمانہ بدل گیا ہے
ہر دل حسن کے آگے گھٹنے ٹیکتا ہے
ٹیکے بھی نہ کیوںکر کہ معاشقانہ بدل گیا ہے
ڈہونڈہوں کہاں؟ اس کو اب اے دل نادان
سنا ہے کہ وہ بستی ٹھکانہ بدل گیا ہے
کل جس پر نازان تھا دل یار اسد اپنا
آج وہی شخص جان جانہ بدل گیا ہے اسد جھنڈیر